مسند امام احمد - حضرت عبدالرحمن بن شبل کی حدیثیں۔ - حدیث نمبر 2753
حدیث نمبر: 619
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَدَقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَدَقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَثَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ. وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
زکوة کی ادائیگی سے فرض ادا ہونا
انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ١ ؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ٢ ؎ اور آپ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟ ) ۔ نبی اکرم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے ، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: ہاں ، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں (کیا ایسا ہے؟ ) ، نبی اکرم نے فرمایا: ہاں ، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں (کیا یہ صحیح ہے؟ ) ، نبی اکرم نے فرمایا: ہاں وہ (سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے) ، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے (کیا یہ صحیح ہے؟ ) ، نبی اکرم نے فرمایا: ہاں (اس نے سچ کہا) ۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: ہاں، (دیا ہے) اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو (کیا یہ سچ ہے؟ ) ، نبی اکرم نے فرمایا: ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: ہاں (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ٣ ؎، پھر یہ کہہ کر وہ واپس چل دیا تب نبی اکرم نے فرمایا: اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس ؓ نے نبی اکرم سے روایت کی ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کر سنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے ٤ ؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرم کو معلومات پیش کیں تو نبی اکرم نے اس کی تصدیق فرمائی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ٦ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ٦٣)، صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٢)، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٠٩٣)، ( تحفة الأشراف: ٤٠٤)، مسند احمد (٣/١٤٣، ١٩٣)، سنن الدارمی/الطہارة ١ (٦٥٦) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: کیونکہ ہمیں سورة المائدہ میں نبی اکرم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کا علم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔ ٢ ؎: اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ ٣ ؎: اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں «والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص» کے الفاظ آئے ہیں۔ ٤ ؎: یعنی «سماع من لفظ الشیخ» کی طرح «القراءۃ علی الشیخ» ( استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا ) بھی جائز ہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ «قراءۃ علی الشیخ» جائز نہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ «سماع من لفظ الشیخ» (استاذ کی زبان سے سننے ) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت «سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني» کے صیغے استعمال کرتا ہے، اس کے برخلاف «قراءۃ علی الشیخ» (استاذ پر پڑھنے ) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد «قرأت علی فلان» يا «قري علی فلان وأنا أسمع»، يا «حدثنا فلان قرائة عليه» کہہ کر روایت کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج إيمان ابن أبي شيبة (4 / 5)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 619
Top