صحيح البخاری - عیدین کا بیان - حدیث نمبر 964
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ کِلَاهُمَا عَنْ عِيسَی وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ جَلَسَ إِحْدَی عَشْرَةَ امْرَأَةً فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَکْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا قَالَتْ الْأُولَی زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ عَلَی رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لَا سَهْلٌ فَيُرْتَقَی وَلَا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلَ قَالَتْ الثَّانِيَةُ زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ إِنْ أَذْکُرْهُ أَذْکُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ قَالَتْ الثَّالِثَةُ زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ وَإِنْ أَسْکُتْ أُعَلَّقْ قَالَتْ الرَّابِعَةُ زَوْجِي کَلَيْلِ تِهَامَةَ لَا حَرَّ وَلَا قُرَّ وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ قَالَتْ الْخَامِسَةُ زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ قَالَتْ السَّادِسَةُ زَوْجِي إِنْ أَکَلَ لَفَّ وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ وَإِنْ اضْطَجَعَ الْتَفَّ وَلَا يُولِجُ الْکَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتْ السَّابِعَةُ زَوْجِي غَيَايَائُ أَوْ عَيَايَائُ طَبَاقَائُ کُلُّ دَائٍ لَهُ دَائٌ شَجَّکِ أَوْ فَلَّکِ أَوْ جَمَعَ کُلًّا لَکِ قَالَتْ الثَّامِنَةُ زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ وَالْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ قَالَتْ التَّاسِعَةُ زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنْ النَّادِي قَالَتْ الْعَاشِرَةُ زَوْجِي مَالِکٌ وَمَا مَالِکٌ مَالِکٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِکَ لَهُ إِبِلٌ کَثِيرَاتُ الْمَبَارِکِ قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِکُ قَالَتْ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُکُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ کَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا وَمِلْئُ کِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا کَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَکَحَهَا فَنَکَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا رَکِبَ شَرِيًّا وَأَخَذَ خَطِّيًّا وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ کُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا قَالَ کُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَکِ فَلَوْ جَمَعْتُ کُلَّ شَيْئٍ أَعْطَانِي مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُنْتُ لَکِ کَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ
حدیث ام زرع کے ذکر کے بیان میں
علی بن حجر سعد احمد بن حباب عیسیٰ ابن حجر عیسیٰ بن یونس، ہشام بن عروہ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ گیارہ عورتیں آپس میں یہ معاہدہ کر کے بیٹھیں کہ اپنے اپنے خاوندوں کا پورا پورا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپائیں ان میں سے پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند ناکارہ پتلے دبلے اونٹ کی طرح ہے اور گوشت بھی سخت دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پہ رکھا ہوا ہو کہ نہ تو پہاڑ کا راستہ آسان ہو کہ جس کی وجہ سے اس پر چڑھنا ممکن ہو اور نہ ہی وہ گوشت ایسا ہو کہ بڑی دقت اٹھا کر اسے اتارنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری عورت نے کہا میں اپنے خاوند کی کیا خبر بیان کروں مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں اس کے عیب ذکر کرنا شروع کر دوں تو کسی عیب کا ذکر نہ چھوڑوں (یعنی سارے ہی عیب بیان کردوں) اور اگر ذکر کروں تو اس کے ظاہری اور باطنی سارے عیب ذکر کر ڈالوں۔ تیسری عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند لم ڈھینگ اگر میں کسی بات میں بول پڑوں تو مجھے طلاق ہوجائے اور اگر خاموش رہوں تو لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت نے کہا میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح ہے نہ گرم نہ سرد نہ اس سے کسی قسم کا ڈر اور رنج۔ پانچویں عورت نے کہا میرا خاوند جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ چیتا بن جاتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر بن جاتا ہے اور گھر میں جو کچھ ہوتا ہے اور اس بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ چھٹی عورت نے کہا میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ہڑپ کرجاتا ہے اور اگر پیتا ہے تو سب چڑھا جاتا ہے اور جب لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑے میں لیٹ جاتا ہے میری طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا تاکہ میری پراگندی کا علم ہو۔ ساتویں عورت نے کہا میرا خاوند ہمبستری سے عاجز نامرد اور اس قدر بیوقوف ہے کہ وہ بات بھی نہیں کرسکتا دنیا کی ہر بیماری اس میں ہے اور سخت مزاج ایسا کہ میرا سر پھوڑ دے یا میرا جسم زخمی کر دے یا دونوں کر ڈالے۔ آٹھویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند خوشبو میں زعفران کی طرح مہکتا ہے اور چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے۔ نویں عورت نے کہا میرا خاوند بلند شان والا دراز قد والا بڑا ہی مہمان نواز اس کا گھر مجلس اور دارالمشور کے قریب ہے۔ دسویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند مالک ہے اور میں مالک کی کیا شان بیان کروں کہ اس کے اونٹ اس قدر زیادہ ہیں جو مکان کے قریب بٹھائے جاتے ہیں چراگاہ میں کم ہی چرتے ہیں وہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ ہلاکت کا وقت قریب آگیا ہے۔ گیارہویں عورت کہنے لگی کہ میرا خاوند ابوزرع ہے میں ابوزرع کی کیا شان بیان کروں کہ زیوروں سے اس نے میرے کان جھکا دئے اور چربی سے میرے بازو بھر دئیے اور مجھے ایسا خوش رکھتا ہے کہ خود پسندی میں میں اپنے آپ کو بھولنے لگی مجھے اس نے ایک ایسے غریب گھرانے میں پایا تھا کہ جو بڑی مشکل سے بکریوں پر گزر اوقات کرتے تھے اور پھر مجھے اپنے خوشحال گھرانے میں لے آیا کہ جہاں گھوڑے اونٹ کھیتی باڑی کے بیل اور کسان موجود تھے اور وہ مجھے کسی بات پر نہیں ڈانٹتا تھا میں دن چڑھے تک سوتی رہتی اور کوئی مجھے جگا نہیں سکتا تھا اور کھانے پینے میں اس قدر فراخی کہ میں خوب سیر ہو کر چھوڑ دیتی ابوزرع کی ماں بھلا اس کی کیا تعریف کروں اس کے بڑے بڑے برتن ہر وقت بھرے کے بھرے رہتے ہیں اس کا گھر بڑا کشادہ ہے اور ابوزرع کا بیٹا بھلا اس کے کیا کہنے کہ وہ کبھی ایسا دبلا پتلا چھریرے جسم والا کہ اس کے سونے کی جگہ (خواب گاہ) نرم و نازک جیسے تلوار کی میان، بکری کے بچے کی ایک دست اس کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ابوزرع کی بیٹی کہ اس کو کیا کہنے کہ وہ اپنی ماں کی تابعدار باپ کی فرمانبردار موٹی تازی سوکن کی جلن تھی ابوزرع کی باندی کا بھی کیا کمال بیان کروں کہ گھر کی بات وہ کبھی باہر جا کر نہیں کہتی تھی کھانے کی چیز میں بغیر اجازت کے خرچ نہیں کرتی تھی اور گھر میں کوڑا کرکٹ جمع نہیں ہونے دیتی تھی بلکہ گھر صاف ستھرا رکھتی تھی ایک دن صبح جبکہ دودھ کے برتن بلوائے جا رہے تھے ابوزرع گھر سے نکلے راستے میں ایک عورت پڑی ہوئی ملی جس کی کمر کے نیچے چیتے کی طرح دو بچے دو اناروں (یعنی اس کے پستانوں) سے کھیل رہے تھے پس وہ عورت اسے کچھ ایسی پسند آگئی کہ اس نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کرلیا پھر میں نے بھی ایک شریف سردار سے نکاح کرلیا جو کہ شہسوار ہے اور سپہ سالار ہے اس نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوزا اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا اس نے مجھے دیا اور یہ بھی اس نے کہا کہ اے ام زرع خود بھی کھا اور اپنے میکے میں بھی جو کچھ چاہے بھیج دے لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی ساری عطاؤں کو اکٹھا کرلوں تو پھر بھی وہ ابوزرع کی چھوٹی سے چھوٹی عطا کے برابر نہیں ہوسکتی سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سارا قصہ سنا کر) مجھ سے فرمایا: (اے عائشہ! ) میں بھی تیرے لئے اسی طرح سے ہوں جسطرح کہ ابوزرع ام زرع کے لئے ہے۔
Aisha reported that (one day) there sat together eleven women making an explicit promise amongst themselves that they would conceal nothing about their spouses. The first one said: My husband is a sort of the meat of a lean camel placed at the top of a hill, which it is difficult to climb up, nor (the meat) is good enough that one finds in oneself the urge to take it away (from the top of that mountain). The second one said: My husband (is so bad) that I am afraid I would not be able to describe his faults-both visible and invisible completely. The third one said: My husband is a long-statured fellow (i. e. he lacks intelligence). If I give vent to my feelings about him, he would divorce me, and if I keep quiet I would be made to live in a state of suspense (neither completely abandoned by him nor entertained as wife). The fourth one said: My husband is like the night of Tihama (the night of Hijaz and Makkah), neither too cold nor hot, neither there is any fear of him nor grief. The fifth one said: My husband is (like) a leopard as he enters the house, and behaves like a lion when he gets out, and he does not ask about that which he leaves in the house. The sixth one said: So far as my husband is concerned, he eats so much that nothing is left back and when he drinks he drinks that no drop is left behind. And when he lies down he wraps his body and does not touch me so that he may know my grief. The seventh one said: My husband is heavy in spirit, having no brightness in him, impotent, suffering from all kinds of conceivable diseases, heaving such rough manners that he may break my head or wound my body, or may do both. The eighth one said: My husband is as sweet as the sweet-smelling plant, and as soft as the softness of the hare. The ninth one said: My husband is the master of a lofty building, long-statured, having heaps of ashes (at his door) and his house is near the meeting place and the inn. The tenth one said: My husband is Malik, and how fine Malik is, much above appreciation and praise (of mine). He has many folds of his camel, more in number than the pastures for them. When they (the camels) hear the sound of music they become sure that they are going to be slaughtered. The eleventh one said: My husband is Abu Zara. How fine Abu Zara is! He has suspended in my ears heavy ornaments and (fed me liberally) that my sinews and bones are covered with fat. So he made me happy. He found me among the shepherds living in the side of the mountain, and he made me the owner of the horses, camels and lands and heaps of grain and he finds no fault with me. I sleep and get up in the morning (at my own sweet will) and drink to my hearts content. The mother of Abu Zara, how fine is the mother of Abu Zara! Her bundles are heavily packed (or receptacles in her house are filled to the brim) and the house quite spacious. So far as the son of Abu Zara is concerned, his bed is as soft as a green palm-stick drawn forth from its bark, or like a sword drawn forth from its scabbard, and whom just an arm of a lamb is enough to satiate. So far as the daughter of Abu Zara is concerned, how fine is the daughter of Abu Zara, obedient to her father, obedient to her mother, wearing sufficient flesh and a source of jealousy for her co-wife. As for the slave-girl of Abu Zara, how fine is she; she does not disclose our affairs to others (outside the four walls of the house). She does not remove our wheat, or provision, or take it forth, or squander it, but she preserves it faithfully (as a sacred trust). And she does not let the house fill with rubbish. One day Abu Zara went out (of his house) when the milk was churned in the vessels, that he met a woman, having two children like leopards playing with her pomegranates (chest) under her vest. He divorced me (Umm Zara) and married that woman (whom Abu Zara) met on the way. I (Umm Zara) later on married another person, a chief, who was an expert rider, and a fine archer: he bestowed upon me many gifts and gave me one pair of every kind of animal and said: Umm Zara, make use of everything (you need) and send forth to your parents (but the fact) is that even if I combine all the gifts that he bestowed upon me, they stand no comparison to the least gift of Abu Zara. Aisha reported that Allahs Messenger ﷺ said to me: I am for you as Abu Zara was for Umm Zara.
Top