صحيح البخاری - حج کا بیان - حدیث نمبر 7034
حَدَّثَنَا حَاجِبُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَوْ أَبَا هُرَيْرَةَ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی التُّجِيبِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَتَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرَی اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطِفُ السَّمْنَ وَالْعَسَلَ فَأَرَی النَّاسَ يَتَکَفَّفُونَ مِنْهَا بِأَيْدِيهِمْ فَالْمُسْتَکْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ وَأَرَی سَبَبًا وَاصِلًا مِنْ السَّمَائِ إِلَی الْأَرْضِ فَأَرَاکَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِکَ فَعَلَا ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ بِهِ ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي فَلَأَعْبُرَنَّهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْبُرْهَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ وَأَمَّا الَّذِي يَنْطِفُ مِنْ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ فَالْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ وَأَمَّا مَا يَتَکَفَّفُ النَّاسُ مِنْ ذَلِکَ فَالْمُسْتَکْثِرُ مِنْ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنْ السَّمَائِ إِلَی الْأَرْضِ فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيکَ اللَّهُ بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِکَ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا قَالَ فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ قَالَ لَا تُقْسِمْ
خوابوں کی تعبیر کے بیان میں
حاجب بن ولید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس یا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے آج رات خواب میں بادل دیکھے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے میں نے لوگوں کو دیکھا کہ اس سے اپنے اپنے ہاتھوں میں چلو بھر بھر کرلے رہے ہیں ان میں سے بعض زیادہ لے رہے ہیں اور بعض کم اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک ہے میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے پھر آپ ﷺ کے بعد ایک آدمی نے اسے پکڑا وہ بھی چڑھ گیا پھر ایک دوسرا آدمی بھی اسے پکڑ کر اوپر چڑھ گیا پھر ایک اور آدمی نے اسے پکڑا تو وہ رسی ٹوٹ گئی پھر اس کے لئے جوڑ دی گئی تو وہ چڑھ گیا حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان اللہ کی قسم آپ ﷺ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی تعبیر کروں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تعبیر کرو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا بادل سے مراد اسلام کا سایہ ہے اور گھی اور شہد کے ٹپکنے سے مراد قرآن مجید کی حلاوت و نرمی ہے اس سے لوگوں کا حاصل کرنا قرآن مجید سے کم اور زیادہ حاصل کرنے کے مترادف ہے اور رسی جو آسمان سے زمین تک ہے اس سے مراد وہ حق ہے جس پر آپ ﷺ قائم ہیں آپ ﷺ اسے مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اللہ اس کے ذریعے آپ ﷺ کو بلند فرمائے گا پھر آپ ﷺ کے بعد جو آدمی اس کو تھامے گا وہ اس کے ذریعہ بلند ہوگا پھر اس کے بعد دوسرا آدمی پکڑے گا وہ بھی بلند ہوجائے گا پھر اس کے بعد ایک دوسرا آدمی پکڑے گا وہ بھی بلند ہوجائے گا پھر اس کے بعد ایک دوسرا آدمی پکڑے گا تو اس سے دین میں خلل واقع ہوگا لیکن وہ خرابی دور ہوجائے گی اور وہ بھی بلندی پر چلا جائے گا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان آپ ﷺ مجھے بتائیں کہ میں نے تعیبر درست کی ہے یا خطاء کی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بعض تعبیر تو نے درست کی ہیں اور بعض میں غلطی کی ہے ابوبکر ؓ نے عرض کیا اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول آپ ﷺ مجھے بتائیں جو میں نے غلطی کی آپ ﷺ نے فرمایا قسم مت دو۔
It is reported eithfr on the authority of Ibn Abbas (RA) or on the authority of Abu Hurairah (RA) that a person came to Allahs Messenger ﷺ and said: Allahs Messenger, I saw while I was sleeping during the night (this vision) that there was a canopy from which butter and honey were trickling and I also saw people collecting them in the palms of their hands, some more, some less, and I also saw a rope connecting the earth with the sky and I saw you catching hold of it and rising towards the heaven; then another person after you catching hold of it and rising towards (Heaven); then another person catching hold of it, but it was broken while it was rejoined for him and he also climbed up. Abu Bakr (RA) said: Allahs Messenger, may my father be sacrificed for you, by Allah, allow me to interpret it. Allahs Messenger ﷺ said: Well, give its interpretation. Thereupon Abu Bakr (RA) said: The canopy signifies the canopy of Islam and that what it trickles out of it in the form of butter and honey is the Holy Quran and its sweetness and softness and what the people get hold of it in their palms implies major portion of the Quran or the small portion; and so far as the rope joining the sky with the earth is concerned, it is the Truth by which you stood (in the worldly life) and by which Allah would raise you (to Heaven). Then the person after you would take hold of it and he would also climb up with the help of it. Then another person would take hold of it and climb up with the help of it. Then another person would take hold of it and it would be broken; then it would be rejoined for him and he would climb up with the help of it. Allahs Messenger, may my father be taken as a ransom for you, tell me whether I have interpreted it correctly or I have made an error. Allahs Messenger ﷺ said: You have interpreted a part of it correctly and you have erred in interpreting a part of it. Thereupon he said: Allahs Messenger, by Allah, tell me that part where I have committed an error. Thereupon he said: Dont take oath.
Top