صحيح البخاری - - حدیث نمبر 3298
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَی الْمَوْتِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَلَغَنِي مَا تَرَی مِنْ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قَالَ قُلْتُ أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ قَالَ لَا الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّی اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِکَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ إِنَّکَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً وَلَعَلَّکَ تُخَلَّفُ حَتَّی يُنْفَعَ بِکَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِکَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَی أَعْقَابِهِمْ لَکِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ قَالَ رَثَی لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَکَّةَ
تہائی مال کی وصیت کے بیان میں
یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عامر بن سعد، حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت ایسے درد میں کی جس میں موت کے قریب ہوگیا تھا۔ عرض کیا اے اللہ کہ رسول! آپ ﷺ جانتے ہیں کہ جیسا درد مجھے پہنچا ہے میں مالدار ہوں اور میرا، میری ایک بیٹی کہ سوا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کیا میں نصف خیرات کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، بلکہ تہائی اور تہائی بہت ہے بیشک اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑے یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں تنگ دست لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا چھوڑے اور تو جو مال بھی خرچ کرتا ہے کہ اس سے اللہ کی رضا کا طالب ہوتا ہے تو اس پر تجھے اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے ساتھیوں کے بعد پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو ہرگز پیچھے نہ رہے گا اگر تو کوئی بھی عمل کرے گا جس سے اللہ کی رضا کا طالب ہوگا تو اس سے تیرا ایک درجہ بلند ہوگا اور بڑھے گا اور شاید تو پیچھے رہے یہاں تک کہ تیرے ذریعے لوگوں کو نفع دیا جائے گا اور دوسروں کو نقصان۔ اے اللہ! میرے صحابہ ؓ کے لئے ان کی ہجرت کو پورا فرما دے اور ان کو اپنی ایڑھیوں پر واپس نہ لوٹا لیکن سعد بن خولہ نقصان اٹھانے والا ہے اور آپ ﷺ نے اس کے لئے افسوس کا اظہار فرمایا اس وجہ سے مکہ میں فوت ہوا۔
Amir bin Sad reported on the authority of his father (Sad bin Abi Waqqas): Allahs Messenger ﷺ visited me in my illness which brought me near death in the year of Hajjat-ul-Wada (Farewell Pilgrimage). I said: Allahs Messenger, you can well see the pain with which I am afflicted and I am a man possessing wealth, and there is none to inherit me except only one daughter. Should I give two-thirds of my property as Sadaqa? He said: No. I said: Should I give half (of my property) as Sadaqa? He said: No. He (further) said: Give one-third (in charity) and that is quite enough. To leave your heirs rich is better than to leave them poor, begging from people; that you would never incur an expense seeking therewith the pleasure of Allah, but you would be rewarded therefore, even for a morsel of food that you put in the mouth of your wife. I said: Allahs Messenger would I survive my companions? He (the Holy Prophet) said: If you survive them, then do such a deed by means of which you seek the pleasure of Allah, but you would increase in your status (in religion) and prestige; you may survive so that people would benefit from you, and others would be harmed by you. (The Holy Prophet) further said: Allah, complete for my Companions their migration, and not cause them to turn back upon their heels. Sad bin Khaula is, however, unfortunate. Allahs Messenger ﷺ felt grief for him as he had died in Makkah.
Top