صحیح مسلم - روزوں کا بیان - حدیث نمبر 5365
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَکْرَاوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْقَيْسِيُّ کُلُّهُمْ عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ کَانُوا نَاسًا فُقَرَائَ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ أَوْ کَمَا قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَکْرٍ بِثَلَاثَةٍ قَالَ فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَکْرٍ قَالَ وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ تَعَشَّی عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّی صُلِّيَتْ الْعِشَائُ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّی نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ بَعْدَمَا مَضَی مِنْ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَکَ عَنْ أَضْيَافِکَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِکَ قَالَ أَوَ مَا عَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّی تَجِيئَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ وَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ کُلُوا لَا هَنِيئًا وَقَالَ وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ فَايْمُ اللَّهِ مَا کُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَکْثَرَ مِنْهَا قَالَ حَتَّی شَبِعْنَا وَصَارَتْ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَتْ قَبْلَ ذَلِکَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَکْرٍ فَإِذَا هِيَ کَمَا هِيَ أَوْ أَکْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَکْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِکَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ قَالَ فَأَکَلَ مِنْهَا أَبُو بَکْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا کَانَ ذَلِکَ مِنْ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَکَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ قَالَ وَکَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَی الْأَجَلُ فَعَرَّفْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ إِلَّا أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَکَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ کَمَا قَالَ
مہمان کا اکرام اور ایثار کی فضیلت کے بیان میں
عبیداللہ بن معاذ عنبری، حامد بن عمر بکراوی، محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، معتمربن سلیمان، ابوعثمان، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ صفہ والے لوگ محتاج تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جس آدمی کے پاس دو آدمیوں کا کھانا (موجود) ہو تو وہ تین (صفہ کے ساتھیوں کو کھانا کھلانے کے لئے) لے جائے اور جس آدمی کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچواں یا چھٹے کو بھی (کھانا کھلانے کے لئے ساتھ) لے جائے یا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت ابوبکر ؓ تین کو لئے آئے اور اللہ کے نبی ﷺ دس ساتھیوں کو لے گئے اور حضرت ابوبکر ؓ تین ساتھیوں کو ساتھ لائے تھے راوی کہتے ہیں کہ وہ میں اور میرے ماں باپ تھے کہ میں نہیں جانتا کہ شاید کہ انہوں نے اپنے بیوی کو بھی کہا ہو اور ایک خادم جو میرے اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں کے گھر میں تھا راوی حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کا کھانا نبی ﷺ کے ساتھ کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز ادا کی گئی ( اور پھر نماز سے فارغ ہو کر) واپس آگئے پھر ٹھہرے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سو گئے الغرض رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا حضرت ابوبکر ؓ (اپنے گھر آئے) کو ان کی بیوی نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کیا تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا وہ کہنے لگیں کہ آپ کے آنے تک مہمانوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا مگر انہوں نے پھر بھی نہیں کھایا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں بھاگ کر (ڈر کی وجہ سے) چھپ گیا حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا او جاہل اور انہوں نے مجھے برا بھلا کہا اور فرمایا مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاؤ اور پھر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تو یہ کھانا نہیں کھاؤں گا حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کی قسم ہم کھانے کا جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے اس کے نیچے سے اتنا ہی کھانا اور زیادہ ہوجاتا تھا یہاں تک کہ ہم خوب سیر ہوگئے اور جتنا کھانا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر ؓ نے وہ کھانا دیکھا تو وہ کھانا اتنا ہی تھا یا اس سے بھی زیادہ ہوگیا حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی بیوی سے فرمایا اے بنی خراس کی بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ کی بیوی نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم کھانا تو پہلے سے بھی تین گنا زیادہ ہوگیا ہے پھر حضرت ابوبکر ؓ نے اس کھانے میں سے کھایا اور فرمایا کہ میں نے جو (غصہ کی حالت میں) قسم کھائی تھی وہ صرف شیطانی فعل تھا پھر ایک لقمہ اس کھانے میں سے کھایا پھر اس کھانے کو اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے گئے وہ کھانا صبح تک آپ ﷺ کے پاس رہا حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ (اس زمانے میں) ہمارے اور ایک قوم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہوچکی تھی تو آپ ﷺ بارہ افراد مقرر فرما دیئے اور ہر افسر کے ساتھ ایک خاص جماعت تھی اللہ جانتا ہے کہ اس جماعت کی کتنی تعداد تھی اور آپ نے وہ کھانا ان کے پاس بھیج دیا اور پھر ان سب نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔
Abdul Rabman bin Abu Bakr (RA) reported that the people of Suffa were very poor. Once the Messenger of Allah ﷺ said (to his Companions): He who amongst you has food for two persons should take three (guests with him), and he who has with him food for four persons should take five or six (guests with him for entertaining them). It was (in accordance with these instructions of the Holy Prophet) that Abu Bakr (RA) brought three persons, and the Apostle of Allah ﷺ brought ten persons (as guests to their respective houses). Abu Bakr (RA) had brought three persons (he himself, and myself), my father and my mother (along with therm). He (the narrator) said: I do not know whether he also said: My wife and one servant who was common between our house and that of Abu Bakr. Abu Bakr (RA) had had his evening meal with Allahs Apostle ﷺ . He stayed here until night prayer had been offered. He then came back (to the house of Allahs Apostle) ﷺ and stayed there until Allahs Messenger ﷺ felt drowsy and (Abu Bakr) then came (back to his own house) when (a considerable) part of the night had been over, as Allah had desired. His wife said to him: What held you back from your guests? He said: Oh! have you not served them the evening meal (by this time)? She said: It was in fact served to them. but they refused to eat until you came. He (Abdul Rahman) said: I slunk away and bid myself. He (Abu Bakr) said: O, you stupid fellow, and he reprimanded me, and said to the guests: Eat, though it may not be pleasant now. He said: By Allah. I will never eat it. He (Abdul Rahman) said: By Allah! we did not take a morsel when from beneath that (there appeared) more until they had eaten to their fill, and lo! it was more than what it was before. Abu Bakr (RA) saw that and found that it was so or more than that. He said to his wife: Sister of Band Firis, what is this? She said: By the coolness of my eyes. it is in excess by three times over the previous one. Then Abu Bakr (RA) ate saying: That was from the Satan (viz. his vow for not eating the food). He then took a morsel out of that and then took it (the rest) to the Messenger of Allah ﷺ , and it was kept there until morning, and during (those days) there was a covenant between us and some other people, and the period of covenant was over, and we had appointed twelve officials with every person amongst them. It is Allah only Who knows as to how many people were there with each of them. He sent (this food to them) and all of them ate out of it.
Top