صحيح البخاری - اذان کا بیان - حدیث نمبر 480
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَکِّيُّ کُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ قَالَ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ مُوسَی أَيْ رَبِّ کَيْفَ لِي بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَحَمَلَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حُوتًا فِي مِکْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِکْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّی کَانَ مِثْلَ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ أَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ يَقُولُ مَائِلٌ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْتُ أَنَّهُ کَانَ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَکَانَ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا
خضر (علیہ السلام) کے فضائل کے بیان میں
عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی، ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ بنی اسرائیل والے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تھے اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے حضرت موسیٰ اور تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں آپ نے فرمایا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف علم کو نہیں لوٹایا یعنی اللہ کا علم سب سے زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی کہ مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جو تجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تیرے اس بندہ تک کیسے پہنچوں گا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا گیا اپنے تھیلے میں ایک مچھلی رکھو جس جگہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی تو وہی وہ جگہ کہ جہاں میرا وہ بندہ ہوگا جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) پھر حضرت موسیٰ چل پڑے اور حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ چل پڑے دونوں حضرات چلتے چلتے ایک چٹان کے پاس آگئے حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع (علیہم السلام) دونوں حضرات سو گئے تھیلے میں مچھلی تڑپی اور تھیلی میں سے باہر نکل کر سمندر میں جا گری اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی خاطر پانی کے بہنے کو روک دیا یہاں تک کہ مچھلی کے لئے پانی میں مخروطی کی طرح ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہما السلام دونوں حضرات کے لئے یہ ایک حیران کن منظر تھا تو باقی سارا دن اور ساری رات وہ دونوں چلتے رہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی ان کو یہ بتانا بھول گئے تو جب صبح ہوئی اور حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے اور تھکاوٹ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس جگہ سے آگے نکل گئے جس جگہ جانے کا حکم دیا گیا تھا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ ایک چٹان تک آئے تو اور شیطان ہی نے تو ہمیں مچھلی کا ذکر کرنے سے بھلا دیا اور بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہم اسی جگہ کی تلاش میں تو تھے پھر وہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات پر واپس ہوئے پھر یہاں تک کہ وہ اس صخرہ چٹان پر آگئے اس جگہ ایک آدمی کو اپنے اوپر کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا حضرت موسیٰ نے ان پر سلام کیا حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہمارے علاقے میں سلام کہاں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا جی ہاں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اے موسیٰ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ علم دیا ہے کہ جسے میں نہیں جانتا اور مجھے وہ عطا فرمایا ہے کہ جسے آپ نہیں جانتے حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور تمہیں اس بات پر کس طرح صبر ہو سکے گا کہ جس کا تمہیں علم نہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی وہ بات آپ سے بیان نہ کر دوں حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا چناچہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ان دونوں حضرات کے سامنے سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ہمیں اپنی کشتی پر سوار کرلے کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا تو انہوں نے ان دونوں حضرات کو بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کرلیا تو حضرت خضر نے اس کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کو اکھاڑ پھینکا حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے فرمایا ان کشتی والوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کردیا جائے یہ تو نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس چیز کو بھی میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میری پکڑ نہ کریں اور نہ ہی میرے معاملہ میں کوئی سختی کریں پھر دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور سمندر کے ساحل پر چلنے لگے تو انہوں نے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا حضرت خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کردیا حضرت موسیٰ پھر بول پڑے کہ آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کردیا آپ نے بڑا نازیبا کام کیا حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکیں گے نبی ﷺ نے فرمایا حضرت خضر (علیہ السلام) کا یہ انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اب میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں تک آئے انہوں نے ان گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کو مہمان رکھنے سے انکار کردیا ان دونوں حضرات نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر نے کے قریب تھی تو اس دیوار کو سیدھا کردیا وہ دیوار جھکی ہوئی تھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو سید ھا کردیا حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس ہم گئے تھے لیکن انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اور ہمیں کھانا نہیں کھلایا اگر آپ چاہیں تو ان سے اس دیوار کو سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیں حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا بیان بتاتا ہوں کہ جس پر آپ صبر نہیں کرسکے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کاش کہ وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ ہمیں ان دونوں حضرات کے مزید واقعات بیان فرماتا اور رسول ﷺ نے فرمایا حضرت موسیٰ کا پہلی مرتبہ سوال کرنا بھول تھا آپ نے فرمایا ایک چڑیا آئی یہاں تک کہ وہ کشتی کے کنارے بیٹھ گئی پھر اس چڑیا نے اپنی چونچ سمندر میں ڈالی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ میرے اور تیرے علم سے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں کی جتنی اس چڑیا نے سمندر میں کی ہے سعید بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو چھین لیتا تھا اور وہ یہ بھی پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا
Said bin jubair reported: I said to Ibn Abbas (RA) that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses (علیہ السلام) (peace be upon him), the Apostle ﷺ of Bani Israil, was not the same who accompanied Khadir, whereupon he said: The enemy of Allah tells a lie. I heard Ubayy bin Kab say: Moses (علیہ السلام) (peace be upon him) stood up to give sermon to the people of Israil. He was asked as to who amongst the people has the best knowledge, whereupon he said: I have the best knowledge. Thereupon Allah was annoyed with him that he did not attribute (the best knowledge) to Him. He revealed to him: A servant amongst My servants is at the junction of two rivers who has more knowledge than yours. Moses (علیہ السلام) said: How can I meet him? It was said to him: Carry a fish in the large basket and the place where you find it missing there you will find him. Thereupon Moses (علیہ السلام) proceeded forth along with a young man (Yusha). Joshua bin Nun and Moses (علیہ السلام) (peace be upon him) put the fish in the basket and there went along with him the young man (Yusha) until they came to a certain rock and Moses (علیہ السلام) and his companion went to sleep and the fish stirred in that basket and fell into the ocean and Allah stopped the current of water like a vault until the way was made for the fish. Moses (علیہ السلام) and his young companion were astonished and they walked for the rest of the day and the night and the friend of Moses (علیہ السلام) forgot to inform him of this incident. When it was morning, Moses (علیہ السلام) (peace be upon him) said to the young man: Bring for us the breakfast for we are dead tired because of this journey, and they did not feel exhausted until they had passed that place where they had been commanded (to stay). He said: Dont you know that when we reached the Sakhra (rock) I forgot the fisii and noth ng made me forget it but the satan that I. could nit remember it? How strange is it that the fish found a way in the river? Moses (علیہ السلام) said: That was what we had been aiming at. Then both of them retraced their steps until they reached Sakhra; there they saw a man covered with a cloth. Moses (علیہ السلام) greeted him. Khadir said to him: Where is as-Salam in our country? He said: I am Moses (علیہ السلام), whereupon he (Khadir) said: You mean the Moses (علیہ السلام) of Bani Israil? He said: Yes. He (Khadir) said: You have a knowledge out of the knowledge of Allah which in fact Allah imparted to you and about that I know nothing and I have knowledge out of Allahs knowledge which He imparted to me and about that you do not know. Moses (علیہ السلام) (peace be upon him) said to him: May I follow you so that you may teach me that with which you have been taught righteousness. He said: You will not be able to bear with me; how you will be able to bear that about which you do not know? Moses (علیہ السلام) said: Thou will find me patient, nor shalt I disobey you in aught. Khadir said to him: If you were to follow me, then do not ask me about anything until I myself speak to you about it. He said: Yes. So Khadir and Moses (علیہ السلام) set forth on the bank of the river that there came before them a boat. Both of them talked to them (the owners of the boat) so that they might carry both of them. They had recognised Khadir and they carried them free. Khadir thereupon took hold of a plank in the boat and broke it away. Moses (علیہ السلام) said: These people have carried us without any charge and you attempt to break their boat so that the people sailing in the boat may drown. This is (something) grievous that you have done. He said: Did I not say that you would not bear with me? He said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon what I did. Then both of them got down from the boat and began to walk along the coastline that they saw a boy who had been playing with other boys. Khadir pulled up his head and killed him. Moses (علیہ السلام) said: Have you killed an innocent person who is in no way guilty of slaying another? You have done something horrible. Thereupon he said: Did I not say to you that you will not be able to bear with me? He ( Moses (علیہ السلام)) said: This (act) is more grievous than the first one. He ( Moses (علیہ السلام)) further said. If I ask you about anything after this, keep not company with me, then you would no doubt find (a plausible) excuse for this. Then they both walked on until they reached the inhabitants of a village. They asked its inhabitants for food but they refused to entertain them as their guests. They found in it a wall which had been bent on one side and was about to fall. Khadir set it right with his own hand. Moses (علیہ السلام), said to him: It is the people to whom we came but they showed us no hospitality and they did not serve us food. If you wish you can get wages for it. He (Khadir) said: This is the parting of ways between me and you. Now I wish to reveal to you the significance of that for which you could not bear with me. Allahs Messenger ﷺ said. May Allah have mercy upon Moses (علیہ السلام)! I wish if Moses (علیہ السلام) could show patience and a (fuller) story of both of them could have been told. Allahs Messenger ﷺ said that the first thing which Moses (علیہ السلام) said was out of forgetfulness. Then there came a sparrow until it perched on the wall of the boat and took water from the ocean. Thereupon, Khadir said: My knowledge and your knowledge in comparison with the knowledge of Allah is even less than the water taken by the sparrow in its beak in comparison to the water of the ocean, and Said bin jubair used to recite (verses 79 and 8O of Sura Kahf) in this way: There was before them a king who used to seize every boat by force which was in order, the boy was an unbeliever.
Top