صحيح البخاری - آرزو کرنے کا بیان - حدیث نمبر 7229
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ کِرَائِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِنَّمَا کَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ وَأَشْيَائَ مِنْ الزَّرْعِ فَيَهْلِکُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَسْلَمُ هَذَا وَيَهْلِکُ هَذَا فَلَمْ يَکُنْ لِلنَّاسِ کِرَائٌ إِلَّا هَذَا فَلِذَلِکَ زُجِرَ عَنْهُ فَأَمَّا شَيْئٌ مَعْلُومٌ مَضْمُونٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ
سونے چاندی کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے بیان میں
اسحاق، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، حضرت حنظلہ بن قیس انصاری ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ سے زمین کو سونے اور چاندی کے عوض کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر زمین کرایہ پر دیتے تھے تو بعض اوقات اس زمین کی تباہی ہوتی اور دوسری سلامت رہتی اور بعض دفعہ یہ سلامت رہتی اور وہ ہلاک ہوجاتی اور لوگوں میں سے بعض کو بچے ہوئے کے علاوہ کچھ کرایہ وصول نہ ہوتا اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہاں اگر کرایہ کے بدلے کوئی معین اور ضمانت شدہ چیز ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
Hanzala bin Qais al-Ansri reported: I asked Rafi bin Khadij about the renting of land for gold and silver, whereupon he said: There is no harm in it for the people let out land situated near canals and at the ends of the streamlets or portion of fields. (But it so happened) that at times this was destroyed and that was saved. whereas (on other occasions) this portion was saved and the other was destroyed and thus no rent was payable to the people (who let out lands) but for this one (which was saved). It was due to this that he (the Holy Prophet) prohibited it. But if there is something definite and reliable (e. g. money). there is no harm in it.
Top