صحيح البخاری - - حدیث نمبر 2944
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَکَبُرَ ذَلِکَ عَلَيْنَا وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا نَدْرِي أَشَيْئٌ بَلَغَهُ مِنْ السَّمَائِ أَمْ شَيْئٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي فَعَلْتُ کَمَا فَعَلْتُمْ قَالَ فَأَحْلَلْنَا حَتَّی وَطِئْنَا النِّسَائَ وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ حَتَّی إِذَا کَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَجَعَلْنَا مَکَّةَ بِظَهْرٍ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ
احرام کی اقسام کے بیان میں
ابن نمیر، عبدالملک بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے حج کا احرام باندھا تو جب ہم مکہ میں آگئے تو آپ ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم حلال ہوجائیں اور اس احرام کو عمرہ کے احرام میں بدل لیں تو یہ بات ہم کو دشوار لگی اور ہم نے اپنے سینوں میں تنگی محسوس کی یہ بات نبی ﷺ تک پہنچ گئی ہم نہیں جانتے کہ آپ ﷺ تک یہ بات کیسے پہنچی؟ آسمان سے یا لوگوں میں سے کسی نے آپ ﷺ تک یہ بات پہنچائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو! تم حلال ہوجاؤ احرام کھول دو اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح کہ تم نے کیا راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے احرام کھول دیا اور ہم نے اپنی بیویوں سے جماع کیا اور وہ سارے کام کئے جو ایک حلال کرتا ہے یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ ہوئی تو ہم نے مکہ سے پشت پھیری اور ہم نے حج کا احرام باندھا۔
Jabir bin Abdullah (RA) reported: We entered with the Messenger of Allah ﷺ in the state of Ihram for Hajj. When we came to Makkah he commanded us to put off Ihram and make it for Umrah. We felt it (the command) hard for us, and our hearts were anguished on account of this and it (this reaction of the people) reached the Apostle of Allah ﷺ . We do not know whether he received (this news) from the Heaven (through revelation) or from the people. (Whatever the case might be) he said; O people, put off Ihram. If there were not the sacrificial animals with me, I would have done as you do. So we put off the Ihram (after performing Umrah), and we had intercourse with our wives and did everything which a non-Muhrim does (applying perfume, putting on clothes, etc.), and when it was the day of Tarwiya (8th of Dhul-Hijja) we turned our back to Makkah (in order to go to Mina, Arafat) and we put on Ihram for Hajj.
Top