سنن النسائی - زینت (آرائش) سے متعلق احادیت مبارکہ - حدیث نمبر 5131
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ کُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَبَکَی طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَی الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ عَلَی أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَکُونَ قَدْ اسْتَمْکَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَکُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِينَکَ فَلْأُبَايِعْکَ فَبَسَطَ يَمِينَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي قَالَ مَا لَکَ يَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلِهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ وَمَا کُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّي لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَائَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّی أَسْتَأْنِسَ بِکُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي
اس بات کے بیان میں کہ اسلام اور حج اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتے ہیں
محمد بن مثنی عنزی، ابومعن، اسحاق بن منصور، ابوعاصم، ابن مثنی، ضحاک، ابوعاصم، حیوہ بن شریح، یزید بن ابی حبیب، ابن شماسہ کہ ہم عمرو بن العاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیرلیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص ؓ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺ پر قابو پا کر آپ ﷺ کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺ کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺ کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ ﷺ کو بوجہ عظمت و جلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کردو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
It is narrated on the authority of Ibn Shamasa Mahri that he said: We went to Amr bin al-As and he was about to die. He wept for a long time and turned his face towards the wall. His son said: Did the Messenger of Allah ﷺ (may peace be upon him not give you tidings of this? Did the Messenger of Allah ﷺ not give you tidings of this? He (the narrator) said: He turned his face (towards the audience) and said: The best thing which we can count upon is the testimony that there is no god but Allah and that Muhammad is the Apostle of Allah ﷺ . Verily I have passed through three phases. (The first one) in which I found myself averse to none else more than I was averse to the Messenger of Allah ﷺ and there was no other desire stronger in me than the one that I should overpower him and kill him. Had I died in this state, I would have been definitely one of the denizens of Fire. When Allah instilled the love of Islam in my heart, I came to the Apostle ﷺ and said: Stretch out your right hand so that may pledge my allegiance to you. He stretched out his right hand, I withdrew my hand, He (the Holy Prophet) said: What has happened to you, O Amr? replied: I intend to lay down some condition. He asked: What condition do you intend to put forward? I said: should be granted pardon. He (the Holy Prophet) observed: Are you not aware of the fact that Islam wipes out all the previous (misdeeds)? Verily migration wipes out all the previous (misdeeds), and verily the pilgrimage wipes out all the (previous) misdeeds. And then no one as or dear to me than the Messenger of Allah ﷺ and none was more sublime in my eyes than he, Never could I, pluck courage to catch a full glimpse of his face due to its splendour. So if I am asked to describe his features, I cannot do that for I have not eyed him fully. Had I died in this state had every reason to hope that I would have bee among the dwellers of Paradise. Then we were responsible for certain things (in the light of which) I am unable to know what is in store for me. When I die, let neither female mourner nor fire accompany me. When you bury me, fill my grave well with earth, then stand around it for the time within which a camel is slaughtered and its meat is distributed so that I may enjoy your intimacy and (in your company) ascertain what answer I can give to the messengers (angels) of Allah.
Top