صحيح البخاری - کھانے کا بیان - حدیث نمبر 5431
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا شَأْنُکَ قُلْتُ کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مِنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلَائِ النَّاسُ وَرَائِي فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَائِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَائً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلِّهِمْ
جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا
زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں (اللہ نہ کرے) آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہرچند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی (تلاش کرتے کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ (میں نے حکم کی تعمیل کی) سب سے پہلے مجھے حضرت عمر ؓ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ؓ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ؓ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر ؓ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر ؓ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ ؓ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر ؓ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل کرنا چھوڑ دیں گے) اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اچھا تو) رہنے دو۔
It is reported on the authority of Abu Hurairah (RA) : We were sitting around the Messenger of Allah ﷺ (may peace and blessings be upon him). Abu Bakr (RA) and Umar were also there among the audience. In the meanwhile the Messenger of Allah ﷺ got up and left us, He delayed in coming back to us, which caused anxiety that he might be attacked by some enemy when we were not with him; so being alarmed we got up. I was the first to be alarmed. I, therefore, went out to look for the Messenger of Allah ﷺ (may peace and blessings be upon him) and came to a garden belonging to the Banu an-Najjar, a section of the Ansar went round it looking for a gate but failed to find one. Seeing a rabi (i. e. streamlet) flowing into the garden from a well outside, drew myself together, like a fox, and slinked into (the place) where Gods Messenger was. He (the Holy Prophet) said: Is it Abu Hurairah (RA) ? I ( Abu Hurairah (RA) ) replied: Yes, Messenger of Allah. He (the Holy Prophet) said: What is the matter with you? replied: You were amongst us but got up and went away and delayed for a time, so fearing that you might be attacked by some enemy when we were not with you, we became alarmed. I was the first to be alarmed. So when I came to this garden, I drew myself together as a fox does, and these people are following me. He addressed me as Abu Hurairah (RA) and gave me his sandals and said: Take away these sandals of mine, and when you meet anyone outside this garden who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, gladden him by announcing that he shall go to Paradise. Now the first one I met was Umar. He asked: What are these sandals, Abu Hurairah (RA) ? I replied: These are the sandals of the Messenger of Allah ﷺ with which he has sent me to gladden anyone I meet who testifies that there is no god but Allah, being assured of it in his heart, with the announcement that he would go to Paradise. Thereupon Umar struck me on the breast and I fell on my back. He then said: Go back, Abu Hurairah (RA) , So I returned to the Messenger of Allah ﷺ , and was about to break into tears. Umar followed me closely and there he was behind me. The Messenger of Allah ﷺ (may peace and blessings be on him) said: What is the matter with you, Abu Hurairah (RA) ? I said: I happened to meet Umar and conveyed to him the message with which you sent me. He struck me on my breast which made me fall down upon my back and ordered me to go back. Upon this the Messenger of Allah ﷺ said: What prompted you to do this, Umar? He said: Messenger of Allah, my mother and father be sacrificed to thee, did you send Abu Hurairah (RA) with your sandals to gladden anyone he met and who testified that there is no god but Allah, and being assured of it in his heart, with the tidings that he would go to Paradise? He said: Yes. Umar said: Please do it not, for I am afraid that people will trust in it alone; let them go on doing (good) deeds. The Messenger of Allah ﷺ said: Well, let them.
Top