صحيح البخاری - - حدیث نمبر 5316
و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُا قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ قَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَکَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ أَلِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا قَالَ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ حَتَّی دَخَلَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي مَا عِنْدَکِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَأَتَتْ بِذَلِکَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ عَلَيْهِ أُمُّ سُلَيْمٍ عُکَّةً لَهَا فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ حَتَّی أَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ رَجُلًا أَوْ ثَمَانُونَ
بااعتماد میزبان کے ہاں اپنے ساتھ کسی اور آدمی کو لے جانے کے جواز میں
یحییٰ بن یحیی، مالک بن انس، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک، حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ ؓ نے ام سلیم ؓ کی والدہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز میں کچھ کمزوری محسوس کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہوئی ہے تو کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے حضرت ام سلیم ؓ نے کہا ہاں پھر ام سلیم نے جو کی روٹیاں لیں اور چادر لے کر اس میں ان روٹیوں کو لپیٹا اور پھر ان کو میرے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا اور کپڑے کا کچھ حصہ مجھے اوڑھا دیا پھر انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیج دیا حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں گیا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں تشریف فرما پایا اور آپ ﷺ کے پاس کچھ اور لوگ بھی تھے میں کھڑا رہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا کھانے کے لئے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اٹھو آپ ﷺ چلے اور میں ان سب سے آگے آگے چلا یہاں تک کہ میں نے حضرت ابوطلحہ کو آکر اس کی خبر دی تو حضرت ابوطلحہ کہنے لگے اے ام سلیم! رسول اللہ ﷺ تو اپنے ساتھیوں کو لے کر آگئے ہیں اور ہمارے پاس تو ان سب کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں ہے حضرت ام سلیم ؓ فرمانے لگیں کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں پھر حضرت ابوطلحہ چلے یہاں تک کہ آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ام سلیم ؓ کے گھر) تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ام سلیم! تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ لے آ ام سلیم وہی روٹیاں لے کر آگئیں پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم فرمانے پر ان روٹیوں کو ٹکڑے کیا گیا حضرت ام سلیم نے تھوڑا سا گھی جو ان کے پاس موجود تھا وہ ان روٹیوں پر نچوڑ دیا پھر رسول اللہ ﷺ نے جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ دس کو بلایا گیا تو انہوں نے کھانا کھایا یہاں تک کہ وہ خوب سیر ہوگئے پھر وہ چلے گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ دس آدمیوں کو بلایا گیا یہاں تک کہ ان سب لوگوں نے کھانا کھایا اور خوب سیر ہوگئے اور سب آدمی تقریبا ستر یا اسی کی تعداد میں تھے۔
Anas bin Malik (RA) reported that Abu Talha said to Umm Sulaim: I felt some feebleness in the voice of Allahs Messenger ﷺ and perceived that it was due to hunger; so have you anything with you? She said: Yes. She brought out barley loaves, then took out a head-covering of hers, in a part of which she wrapped those loaves and then put them beneath my mantle and covered me with a part of it. She then sent me to Allahs Messenger ﷺ . I set forth and found Allahs Messenger ﷺ sitting in the mosque in the company of some persons. I stood near them, whereupon Allahs Messenger ﷺ said: Has Abu Talha sent you? I said, Yes. He said: Is it for a feast? I said. Yes. Thereupon Allahs messenger ﷺ said to those who were with him to get up. He went forth and so I did before them, until I came to Abu Talha and informed him. Abu Talba said: Umm Sulaim, here comes Allahs Messenger ﷺ along with people and we do not have enough (food) to feed them. She said: Allah and His Messenger know best. Abu Talha went out (to receive him) until he met Allahs Messenger ﷺ and Allahs Apostle ﷺ came forward along with him until they both (Allahs Messenger, along with Abu Talha) came in. Then Allahs Messenger ﷺ said: Umm Sulaim, bring forth that which you have with you. She brought the bread. Allahs Messenger ﷺ commanded that the bread be broken into small pieces, and when Umm Sulaim had squeezed a small waterskin and put seasoning on it, Allahs Messenger ﷺ recited something regarding it what Allah wished him to say. He then said: Allow ten (guests to come in and have their meals). He permitted them; they ate until they had their fill. They then went out. He (the Holy Prophet) again said: Permit ten (more) and he (the host gave permission to them. They ate until they had enough. Then they went out. he again said: Permit ten (more) until all the people had eaten to their fill, and they were seventy or eighty persons.
Top