Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (530 - 603)
Select Hadith
530
531
532
533
534
535
536
537
538
539
540
541
542
543
544
545
546
547
548
549
550
551
552
553
554
555
556
557
558
559
560
561
562
563
564
565
566
567
568
569
570
571
572
573
574
575
576
577
578
579
580
581
582
583
584
585
586
587
588
589
590
591
592
593
594
595
596
597
598
599
600
601
602
603
مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 3033
عطایا کا بیان
عطایا لفظ عطیہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بخشش یعنی اپنی کسی چیز کی ملکیت اور اس کے حق تصرف کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کردینا یا کسی کو اپنی کوئی چیز بلا کسی عوض دے دینا چناچہ اس باب میں عطاء و بخشش کی تمام قسموں مثلًا وقف ہبہ عمری اور رقبی کا ذکر کیا جائے گا۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ عطایا سے مراد امراء و سلاطین اور سربراہان مملکت کی بخششیں اور ان کے انعام ہیں۔ امام غزالی نے منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ امراء و سلاطین کی بخششوں اور سرکاری انعامات کو قبول کرنے کے سلسلے میں میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ بعض علاء تو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بخشش انعام کسی ایسے مال کی صورت میں ہو جس کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول کرلینا درست ہے لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ جب تک اس مال کے حلال ہوجانے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول نہ کرنا ہی اولی ہے اور زیادہ بہتر ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں سلاطین کے پاس اور سرکاری خزانوں میں اکثر وبیشتر غیرشرعی ذرائع سے حاصل ہونیوالا مال وزر ہوتا ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ غنی اور فقیر (یعنی مستطیع ومفلس) دونوں کے لئے امراء و سلاطین کے صلے (تحفے وہدایا) حلال ہیں جب کہ ان کا مال حرام ہونا تحقیقی طور پر ثابت نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کا تحفہ قبول فرمایا تھا اور ایک یہودی سے قرض لیا تھا باوجود یہ کہ یہودیوں کے بارے میں قرآن کریم نے آیت (اکالون للسحت) ( حرام مال کھانیوالے) فرمایا ہے۔ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جس مال کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو وہ فقیر (مفلس) کے لئے تو حلال ہے لیکن غنی مستطیع کے لئے حلال نہیں ہے۔ آخر میں خلاصہ طے طور پر یہ مسئلہ جان لیجئے کہ جو شخص مفلس ونادار ہو اس کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ سلاطین کا مال قبول کرے کیونکہ اگر وہ مال سلطان کی ذاتی ملکیت میں سے ہے تو اس کو لے لینا بلاشبہ درست ہے اور اگر وہ مال فئی مال غنیمت خراج یا عشر میں سے ہے تو پھر مفلس اس کا حقدار ہی ہے اسی طرح ایسے مال میں جو فئی اور خراج عشر میں حاصل ہوا ہو اہل علم کا بھی حق ہے کہ اسے وہ مال لے لینا چاہئے چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جو شخص برضا ورغبت اسلام میں داخل ہوا اور اس نے قرآن یاد کیا تو وہ بیت المال سے ہر سال دو سو درہم لینے کا حق دار ہے اگر وہ اپنے اس حق کو دنیا میں نہیں لے گا تو وہ یعنی اس کا اجر اسے عقبی میں مل جائے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ مفلس اور عالم دین کو بیت المال سے اپنا حق لے لینا چاہئے۔
Top