بے مثال تحمل اور خوش اخلاقی :
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اس وقت آپ ﷺ کے جسم پر (یمن کے شہر) نجران کی بنی ہوئی (دھاری دار) چادر تھی، جس کے کنارے بہت دبیز اور موٹے تھے، (اچانک راستہ میں) ایک دیہاتی آنحضرت ﷺ کو مل گیا اور اس نے (اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے آپ ﷺ کی چادر پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ نبی کریم ﷺ اس کے سینے کی قریب آلگے، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس دیہاتی کے اس قدر سختی سے چادر کھینچنے سے رسول کریم ﷺ کی گردن مبارک پر چادر کے کنارے کی رگڑ کا نشان پڑگیا، پھر اس دیہاتی نے کہا کہ محمد ﷺ تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلواؤ۔ آنحضرت ﷺ نے پہلے تو (حیرت کے ساتھ) اس کی طرف دیکھا پھر (ازراہ تلطف) مسکرائے اور اس کو کجھ دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری ومسلم )
تشریح
ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال اللہ الذی عندک کے بعد اس دیہاتی نے یہ بھی کہا لامن مالک ولامن مال ابیک (نہ تو تمہارے ذاتی مال میں سے مانگ رہا ہوں اور نہ تمہارے باپ کے مال میں سے) اور اللہ کے مال سے زکوٰۃ کا مال مراد ہے! یہ حدیث لوگوں کی سخت گوئی بےمروتی اور بداخلاقی پر انحضرت ﷺ کے کمال ضبط و تحمل کی دلیل ہے اور اس بارے میں سرکار رسالت مآب کا ایک ایسا کردار پیش کرتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ واضح رہے کہ مذکورہ دیہاتی پرلے درجہ کا اجڈ اور نہایت درشت خو تھا، اس نے نہ تہذیب وشائستگی سیکھی اور نہ اخلاق وآداب کے معمولی مراتب سے بھی روشناس تھا، اس لئے اس نے اپنے خالص اجڈ پن میں آنحضرت ﷺ سے اس قدر غیر شائستہ انداز میں اپنا مدعا ظاہر کیا۔ اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ حاکم وسلطان کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی رعایا اور نادان لوگوں کی ایذاء پر صبر و تحمل کرے اور دوسری بات یہ کہ اپنی حیثیت عرفی اور اپنے وقار کی حفاظت کے لئے کسی کو کچھ دینا دانشمندی کا تقاضہ ہے۔