امام کے موقف سے بعد میں کوئی مضائقہ نہیں
حضرت عمرو بن عبداللہ بن صفوان (تابعی) اپنے ماموں سے کہ جن کا نام یزید بن شیبان تھا، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم میدان عرفات میں اس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے جو ہمارے لئے متعین تھی۔ اور عمرو اس جگہ کو امام کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے بہت دور بیان کرتے تھے، چناچہ ابن مربع الانصاری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں رسول کریم ﷺ کا ایلچی بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور آنحضرت ﷺ کا تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اپنے مشار (یعنی اپنی عبادت کی جگہ) ٹھہرے رہو کیونکہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث (کی پیروی) پر قائم ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ میدان عرفات میں ہر قبیلہ اور ہر قوم کے لئے الگ الگ ایک جگہ موقف کے لئے متعین ہوتی تھی، ہر شخص اسی جگہ وقوف کرتا جو اس کی قوم کے لئے متعین ہوتی، چناچہ حضرت یزید بن شیبان کے قبیلہ کا موقف جس جگہ تھا وہ جگہ اس مقام سے بہت دور تھی جہاں آنحضرت ﷺ نے وقوف فرمایا تھا، لہٰذا حدیث امام کے موقف سے مراد آنحضرت ﷺ کا موقف ہے۔ بہرکیف میدان عرفات میں آنحضرت ﷺ سے اس دوری اور بعد کی بنا پر یزید بن شیبان نے چاہا کہ آنحضرت ﷺ سے یہ عرض کریں کہ آپ ﷺ ہمیں بھی اپنے قریب ہی وقوف کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اس بات کی درخواست کرنے والے ہیں تو آپ ﷺ نے ایک صحابی کے ذریعے کہ جن کا نام ابن مربع تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ اپنے قدیمی موقف پر ہی وقوف کرو چناچہ حدیث مشاعر سے مراد ان کا قدیمی موقف ہے اور تم لوگ اپنے اس موقف سے جو تمہارے دادا سے تمہارے لئے متعین چلا آ رہا ہے منتقل ہونے کی خواہش نہ کرو، کیونکہ اول تو پورا میدان عرفات موقف ہے۔ دوسرے یہ کہ میدان عرفات میں امام کے موقف کی دوری یا نزدیکی سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر یہ کہ اگر ہر شخص یہی خواہش کرنے لگے کہ میں اپنے امام اور اپنے امیر کے قریب ہی وقوف کروں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے چناچہ آپ ﷺ نے یہ بات ان کی تسلی کے لئے کہلائی تاکہ آپس میں نزاع و اختلاف کی صورت پیدا نہ ہوجائے۔