کسی گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بنی اسرائیل میں دو شخص تھے جو آپس میں دوست تھے ان میں سے ایک تو عبادت میں بہت ریاضت کرتا تھا اور دوسرا گناہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں گناہگار ہوں یعنی وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا تھا۔ چناچہ عبادت کرنے والے نے اس سے کہنا شروع کیا جس چیز میں تم مبتلا ہو یعنی گناہ میں اس سے باز آجاؤ گنہگار اس کے جواب میں کہتا کہ تم میرے پروردگا پر چھوڑ دو! کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے وہ مجھے معاف کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن اس عابد نے اس شخص کو ایسے گناہ میں مبتلا دیکھا جسے وہ بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا اس نے اس سے کہا کہ تم اس گناہ سے باز آجاؤ گنہگار نے جواب دیا کہ تم مجھے میری پروردگار پر چھوڑ دو، کیا تم میرے داروغہ بنا کر بھیجے گئے ہو؟ (عابد نے یہ سن کر) کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا اس کے بعد حق تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس فرشتہ بھیج کر ان کی روحیں قبض کرائیں اور پھر جب وہ دنوں یعنی ان کی روحیں حق تعالیٰ کے حضور برزخ میں یا عرش کے نیچے حاضر ہوئیں تو حق تعالیٰ نے گنہگار سے تو فرمایا کہ تو میری رحمت کے سبب جنت میں داخل ہوجا اور دوسرے سے فرمایا کہ کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر دے؟ اس نے کہا کہ نہیں پروردگار پھر اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مامور ہیں فرمایا کہ اس کو دوزخ کی طرف لے جاؤ۔ (احمد)
تشریح
چونکہ عبادت کرنے والے نے اپنی عبادت اور اپنے نیکی اعمال پر غرور وتکبر کا اعتماد کیا اور اس گنہگار کو اپنے سے حقیر جان کر اس سے یہ کہا کہ حق تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا اس لئے اسے مستحق عذاب قرار دیا گیا اسی لئے کسی بزرگ کا قول ہے کہ جو گناہ اپنے کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا باعث ہو وہ اس طاقت عبادت سے بہتر ہے جو غرور وتکبر اور نخوت میں مبتلا نہ کرے۔