نعمت پر شکر اور مصیبت پر صبر امت مرحومہ کا وصف عظیم
حضرت ام درداء ؓ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابودرداء ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوالقاسم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا تھا کہ اے عیسیٰ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کروں گا جب انہیں کوئی پسندیدہ چیز یعنی نعمت و راحت ملے گی تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے اور جب کوئی ناپسندیدہ چیز یعنی تکلیف و مصیبت پہنچے گی تو ثواب کی امید رکھیں گے اور صبر کریں گے در آنحالیکہ نہ تو عقل ہوگی اور بردباری۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار! یہ کیوں کر ہوگا جب کہ نہ عقل ہوگی نہ بردباری! پروردگار نے فرمایا میں انہیں اپنی بردباری اور اپنے علم میں سے کچھ حصہ دے دوں گا۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔
تشریح
یہاں امت سے نبی کریم ﷺ کے نیک و فرمانبردار اور صلحاء مراد ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد نہ عقل ہوگی نہ بردباری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ مصبت و تکلیف کی وجہ سے بردباری و عقل جاتی رہے گی، لیکن مصیبت و تکلیف پر صبر کریں گے اور ثواب کے طلب گار ہوں گے یعنی بردباری اور عقل یہ دونوں ایسے وصف ہیں کہ ان کی وجہ سے انسان مصیبت و حادثہ کے وقت جزع و فزع اور بےصبری اختیار کرنے سے باز رہتا ہے اور یہ جان کر صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہتا ہے کہ نفع و نقصان اور تکلیف و راحت سب کچھ اللہ رب العزت ہی کی طرف سے ہے لہٰذا ان دونوں اوصاف کے نہ ہونے کے باوجود صبر و سکون کے دامن کو پکڑے رہنا قابل تعجب بات ہے؟ چناچہ اسی لئے حضرت عیسیٰ نے پوچھا کہ جب بردباری اور عقل ہی کا فقدان ہوگا تو پھر صبر کرنا کیسے ممکن؟ اور پھر ثواب کی امید کے کیا معنی؟ حضرت عیسیٰ کے اس اشکال اور ان کی اس حیرت کا جواب بارگاہ الوہیت سے یہ دیا گیا کہ ایسے مواقع پر امت مرحومہ کے افراد کی راہنمائی عقل و دانش اور حلم و بردباری کا وہ نور کرے گا جو کسبی نہیں ہوگا بلکہ میں اپنے پاس سے عقل و بردباری کی دولت بلا کسب عطا کروں گا جس کی وجہ سے بڑی بڑی مصیبت پر وہ صبر کریں گے اور ثواب کے امیدوار ہوں گے۔