عورت کی میت کو مرد ہی قبر میں اتاریں
محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے یا نکالنے کا کام صرف مرد ہی انجام دیں اور چونکہ جس طرح عورت کو اس کی زندگی میں کسی اجنبی مرد کا ضرورت کے وقت اس طرح چھونا جائز ہے کہ درمیان میں کپڑا وغیرہ حائل ہو اسی طرح مرد و عورت کو بھی بوقت ضرورت اجنبی مرد کا چھونا جائز ہے۔ لہٰذا جب کوئی عورت مرجائے اور اس کا کوئی محرم نہ ہو تو اسے قبر میں اس کے وہ پڑوسی اتاریں جو نیک و صالح ضعیف موجود نہ ہوں تو پھر وہ پڑوسی جو ان کو قبر میں اتاریں جو نیک و صالح ہوں ہاں اگر محرم موجود ہوں خواہ دودھ کے اعتبار سے محرم ہوں خواہ سسرال کی طرف سے تو وہی قبر میں اتر کر دفن کریں۔ اگر مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں اشکال پیدا ہو کہ علماء تو یہ لکھتے ہیں کہ عورت کی میت کو قبر میں اتار نے کے لئے خاوند اور محارم اولیٰ ہیں تو حضرت ام کلثوم کو حضرت عثمان نے یا خود آنحضرت ﷺ نے قبر میں کیوں نہیں اتارا؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ احتمال ہے اس وقت آنحضرت ﷺ اور حضرت عثمان کو کوئی عذد پیش آگیا ہوگا اس لئے نہ تو آنحضرت ﷺ ہی قبر میں اترے اور نہ حضرت عثمان ہی نے قبر میں اتر کر حضرت ام کلثوم ؓ کو رکھا۔