نیک اعمال میں زیادتی کے لئے درازی عمر باعث سعادت ہے
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ جان کنی کا خوف سخت ہے، بیشک یہ نیک بختی ہے کہ بندہ کی عمر دراز ہو اور اللہ تعالیٰ اسے طاعات کی طرف پھیر دے (احمد)
تشریح
مطلع اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر چرھ کر کسی چیز کو دیکھتے ہیں یہاں حدیث کے الفاظ میں مطلع سے مراد سکرات الموت اور اس کی سختی ہے کہ پہلے انسان اس میں گرفتار ہوتا ہے پھر مرتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کی آرزو میں کوئی فائدہ اور نیک بختی نہیں ہے، جو شخص موت کی آرزو کرتا ہے وہ غم و آلام کی سختی دل شکستگی اور صبر و عزم کی کمی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے لہٰذا مرتے وقت اس کا غم اور اس کی دل شکستگی و مایوسی اور زیادہ ہوگی اور ایسے میں غضب الٰہی کا مستحق بھی ہوگا اس لئے موت کی آرزو سے کیا فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بےصبری اور دل شکستگی و مایوسی کی وجہ سے موت کی آرزو ممنوع ہے ہاں دیدار الٰہی کے اشتیاق و شوق اور عالم آخرت کی محبت کی وجہ سے موت کی آرزو جائز ہے۔ حدیث کے الفاظ ان من السعادۃ سے آرزوئے موت کی ممانعت کی دوسری علت یہ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت تو خود ایک نہ ایک دن آنے ہی والی ہے، دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانو اور اس زندگی میں آخرت کے لئے جو کچھ توشہ تیار کرسکتے ہو کرلو، یعنی نیک اعمال کئے جاؤ تاکہ جب موت آ ہی جائے اور تم اس دنیا سے دارالبقاء کو سدھارو تو تمہارا دامن نیک و صالح اعمال کی سعادت سے بھرپور ہو۔ الدنیا مزرع الآخرۃ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یہاں نیک اعمال کرو گے تو وہاں کام آئیں گے۔