جزیرۃ العرب سے یہودیوں کا اخراج
اور حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ( ایک دن) امیر المؤمنیں حضرت عمر فاروق ؓ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور ( اس خطبہ میں) فرمایا کہ ( تم سب جانتے ہو گے کہ) رسول کریم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مال و جائداد سے متعلّق ایک معاملہ طے فرمایا تھا ( اور وہ یہ کہ ان یہودیوں کو خیبر ہی میں رہنے دیا جائے گا نیز ان کے کھجوروں کے باغات اور کھیت کھلیان کو بھی انہی کی تحویل و ملکیت میں باقی رکھاجائے گا البتہ ان کی پیداوار اور آمدنی میں سے آدھا حصہ لیا جایا کرے گا اور آنحضرت ﷺ نے ان پر اسی طرح جزیہ بھی مقرر کیا تھا) اور آپ ﷺ نے ( اسی وقت) ان یہودیوں سے فرمادیا تھا کہ ہم تمہیں ( خیبر میں) اس وقت تک رہنے دیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں رہنے دے گا ( یعنی تم لوگ اس وقت تک خیبر میں مقیم رہنے کے حق دار ہو گے جب تک کہ ہمیں اللہ تعالیٰ تم کو جلا وطن کردینے کا حکم نہ دے دے) لہٰذا ( حضرت عمر ؓ نے کہا کہ) اب میں ان کو جلا وطن کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ پھر جب حضرت عمر ؓ نے اس بات کا فی صلہ کرلیا ( کہ ان کو جلا وطن کردیا جائے) تو ( ان یہودیوں کے) قبیلہ بنی ابی الحقیق کا ایک شخص ( جو اپنی قوم کا بڑا بوڑھا سردار تھا) حضرت عمر ؓ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ امیر المؤمنین! کیا آپ ہمیں جلا وطن کر رہے ہیں حالانکہ آپ ﷺ نے ہمیں (خیبر میں) رہنے دیا تھا اور ہمارے مال و اسباب سے متعلّق ہم سے ایک معاملہ بھی طے کیا تھا!؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ میں رسول کریم ﷺ کی (یہ) بات بھول گیا ہوں ( جو آپ ﷺ نے تم کو مخاطب کر کے کہی تھی) کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا اور تو کیا کرے گا جب تجھ کو خیبر سے جلا وطن کردیا جائے گا اور رات کے بعد رات میں تیری اونٹنی تیرے پیچھے دوڑ رہی ہوگی ( گویا آنحضرت ﷺ نے تجھ کو اس آنے والے وقت سے ڈرایا تھا جب تجھ کو راتوں رات خیبر سے نکل جانا پڑے گا) اس شخص نے ( یہ سن کر) کہا کہ یہ بات تو ابوالقاسم ﷺ نے بطور مذاق کہی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے دشمن، تم جھوٹ بکتے ہو ( آنحضرت ﷺ نے یہ بات مذاق کے طور پر نہیں کہی تھی بلکہ ازراہ معجزہ تمہیں ایک غیبی بات کی خبر دی تھی) اور پھر حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کردیا اور ان کے پاس از قسم میوہ جو کچھ تھا جیسے کھجوریں وغیرہ ان کی قیمت میں ان کو مال، اونٹ اور اسباب جیسے رسیاں اور پالان وغیرہ دے دیئے۔ ( بخاری )