کفار مکہ کے مسلمان ہوجانے والے غلاموں کو واپس کرنے سے آنحضرت ﷺ کا انکار
اور حضرت علی کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن (مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان) معاہدہ لکھے جانے سے پہلے کچھ غلام (مکہ سے آ کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ان کے مالکوں نے آنحضرت ﷺ کو لکھا کہ محمد ﷺ اللہ کی قسم یہ غلام تمہارے پاس اس لئے نہیں پہنچے ہیں کہ وہ تمہارے دین کی طرف رغبت رکھتے ہیں بلکہ یہ لوگ غلامی ( سے نجات پانے کی غرض سے بھاگ کر گئے ہیں ( جب صحابہ میں سے) چند لوگوں نے ( یہ مکتوب دیکھا تو) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان کے مالکوں نے بالکل صحیح لکھا ہے آپ ﷺ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیجے ( یہ سن کر رسول کریم ﷺ غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ قریش والو میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہیں آؤ گے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ تم پر اس شخص کو مسلط نہ کر دے جو تمہارے اس فیصلے کہ ان غلاموں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس بھیج دیا جائے اور اس طرح ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد ان کو دار الحرب کے حوالے کردیا جائے) کی بناء پر تمہاری گردن اڑا دے اور پھر آپ ﷺ نے ان غلاموں کی واپسی کے مطالبہ کو رد کردیا اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ ہیں۔ (ابو داؤد)
تشریح
آنحضرت ﷺ اس لئے غضبناک ہوئے کہ صحابہ نے ان غلاموں کے حق میں اپنی ذاتی رائے کو شرعی حکم کے مقابل پیش کیا اور گویا ان کے مالکوں کے دعوے کی گواہی دی، چناچہ ان غلاموں کے حق میں شرعی حکم یہ تھا کہ وہ چونکہ دار الحرب سے نکل آنے کے سبب محض اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے معصوم اور آزاد ہوگئے تھے ان کو ان کے پاس دارالحرب واپس کردینا جائز نہیں تھا، لہٰذا صحابہ کا ان کی واپسی کے مطالبہ کی تائید کرنا جبر و زیادتی پر ان کے مالکوں کی مدد کرنے کے مترادف تھا۔