قیدیوں کی تحقیق وتفتیش
اور حضرت عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کے جو لوگ قیدی بنا کر لائے گئے تھے ان میں میں بھی تھا ہمیں نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت صحابہ نے (یہ طریقہ اختیار کیا کہ قیدیوں میں جو چھوٹی عمر والے تھے ان کے زیر ناف حصے کو کھول کھول کر دیکھ رہے تھے جس کے (زیر ناف حصے پر بال اگ آئے تھے اس کو قتل کردیا جاتا، کیونکہ زیر ناف حصے پر بال اگ آنا بلوغ کی علامت ہے، لہٰذا ایسے شخص کو مسلمانوں سے لڑنے والا شمار کیا جاتا تھا) اور جس کے بال نہ اگے ہوئے تھے اس کو قتل نہیں کیا جاتا تھا (کیونکہ اس کو ذریت یعنی بچوں میں شمار کیا جاتا تھا چناچہ میرے زیر ناف حصہ کو بھی کھولا گیا اور جب وہاں اگے ہوئے بال نہیں پائے گئے تو مجھ کو قیدیوں ہی میں (زندہ) رکھا گیا۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ زیر ناف حصے پر بالوں کے اگ آنے کو بلوغ کی علامت قرار دینا ضروری مصلحت کی بناء پر تھا کیونکہ اگر ان قیدیوں سے بلوغ کی واقعی علامت یعنی احتلام اور عمر بلوغ کو پوچھا جاتا تو وہ اپنی ہلاکت کے خوف سے یقینا صحیح بات نہ بتاتے۔