بدر کے میدان جنگ میں زعماء مکہ کی دعوت مبارزت
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ جب معرکہ بدر کا دن آیا (اور میدان جنگ میں مجاہدین اسلام اور کفار مکہ، ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوگئے تو (کفار مکہ میں سے) ابن ربیعہ (لڑنے کے لئے صف میں سے نکل کر) آگے بڑھا، اس کا بھائی (یعنی شیبہ ابن ربیعہ) بھی آیا، عتبہ نے پکار کر کہا کون ہے جو (ہمارے مقابلہ پر) لڑنے کے لئے میدان میں آئے؟ (مجاہدین اسلام کی جانب سے) اس کا جواب انصار کے کئی جوانوں نے دیا (یعنی وہ عتبہ اور اس کے ساتھیوں سے لڑنے کے لئے صف میں سے نکل کر میدان میں آئے) عتبہ نے (ان کو دیکھا تو) پوچھا کہ تم کون ہو؟ ان جوانوں نے عتبہ کو بتایا کہ ہم (مدینہ کے) انصار ہیں، عتبہ نے کہا کہ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے (یعنی ہم تمہارے ساتھ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے) بلکہ ہم تو اپنے چچا کے بیٹوں (یعنی مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے والے قریشی مسلمانوں) سے لڑنا چاہتے ہیں۔ (یہ سن کر) رسول کریم ﷺ نے (اپنی صف کی طرف مخاطب ہو کر) فرمایا حمزہ! تم کھڑے ہوجاؤ علی! تم کھڑے ہوجاؤ) عبیدہ ابن حارث! تم کھڑے ہوجاؤ (اور آگے بڑھ کر ان نشہ طاقت کے سرمستوں کا سرغرور وتکبر کچل دو ) چناچہ حمزہ عتبہ کے مقابلہ پر گئے (اور اس کو مار ڈالا) میں (یعنی علی) شیبہ کے مقابلہ پر گیا (اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ و ولید کے درمیان دو سخت وار ہوئے اور ان میں سے ایک نے اپنے مقابل کو زخمی اور نڈھال کردیا، پھر ہم نے ولید پر حملہ کیا اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو (جو ولید کے وار سے سخت زخمی ہوگئے تھے معرکہ کے میدان سے) اٹھا لائے۔ (احمد، ابوداؤد)