مدعاعلیہ کی قسم کا اعتبار کیا جائے خواہ وہ حقیقت میں جھوٹی قسم کیوں نہ ہو
اور حضرت علقمہ ابن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا (ایک دن) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حضرموت کا رہنے والا اور ایک شخص کندہ کا۔ دونوں حاضر ہوئے حضرمی (یعنی حضرموت کے رہنے والے) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس شخص نے میری زمین (کو غصب کر کے اس) پر قضبہ کرلیا ہے کندی نے کہا کہ وہ میری زمین ہے اور ہاتھ (یعنی میرے قبضے) میں ہے، اس شخص کا اس زمین پر کوئی حق نہیں ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دونوں فریق کا بیان سن کر حضرمی سے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا کہ نہیں! آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو اب تمہارے دعوی کا دارومدار اس (مدعا علیہ کی قسم پر ہے (کہ اگر یہ قسم کھانے کا انکار کر دے گا تو تمہارا دعوی تسلیم کرلیا جائے گا اور اس نے قسم کھالی تو تمہارا دعوی باطل کردیا گا) اس (حضرمی) نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص تو فاجر (جھوٹا ہے) اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس نے جس چیز کی قسم کھائی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ اور اس کو کسی چیز سے پرہیز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (بہرحال) تمہارے لئے اس شخص کی طرف سے سوائے اس (قسم) کے اور کچھ نہیں ہے۔ (یہ سن کر) وہ (کندی) شخص قسم کھانے کے لئے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر یہ شخص اس حضرمی) کے مال قسم کھائے گا تاکہ اس کا مال زبردستی ہضم کر جائے تو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کریں گے کہ وہ (اللہ) اس سے بیزار ہوگا۔ (مسلم)
تشریح
وہ شخص قسم کھانے کے لئے چلا ممکن ہے کہ اس کا چلنا اس اعتبار سے ہے کہ جیسے شافعیہ کے یہاں یہ مسئلہ ہے کہ یہ قسم کھانے والا پہلے وضو کرتا ہے اور پھر ایک خاص وقت میں یعنی جمعہ کے روز عصر کے بعد قسم کھاتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ مدعی کی طرف سے پیٹھ پھیر کر آنحضرت ﷺ کی طرف چلا تاکہ آپ ﷺ کے پاس پہنچ کر قسم کھائے۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کئی مسئلے نکلتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ اس طرح کے قضیے میں اس (اجنبی سے قبضے والا اولی ہے۔ جو اس کے زیر چیز پر دعوی کرے۔ دوسرا یہ کہ مدعا علیہ پر قسم کھانا لازم ہے جب کہ وہ مدعی کے دعوی کو تسلیم نہ کرے۔ اور تیسرا یہ کہ فاجر مدعا علیہ کی قسم کو بھی اس طرح تسلیم و قبول کیا جائے جس طرح عادل مدعا علیہ کی قسم تسلیم و قبول کی جاتی ہے نیز اس قسم کھا لینے کی وجہ سے اس پر سے مدعی کا مطالبہ ساقط ہوجاتا ہے (لیکن یہ واضح رہے کہ اگر عدالت میں سچی گواہی سے مدعا علیہ کی قسم کا جھوٹ معلوم ہوجائے تو پھر اس کی قسم کالعدم قرار پائے گی )۔