منصب قضاقبول کرنے سے حضرت ابن عمر کا انکار
اور حضرت ابن موہب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ابن عفان نے (اپنے زمانہ خلافت میں حضرت ابن عمر سے کہا کہ لوگوں کا قاضی بن جاؤ (یعنی حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر کی خدمت میں منصب قضا کی پیش کش کی) حضرت ابن عمر نے کہا امیر المؤمنین! مجھ کو اس کام سے معاف رکھئے۔ حضرت عثمان نے فرمایا تم اس منصب کو کیوں ناپسند کرتے ہو! حالانکہ تمہارے والد! حضرت عمر فاروق) تو اپنے دور خلافت کے علاوہ بھی نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں) قضاء کا کام کرتے تھے؟۔ حضرت ابن عمر نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخض قضاء پر فائز ہو اور مبنی بر انصاف فیصلے کرے تو وہ اس لائق ہے کہ وہ اس منصب سے برابر سرابر جدا ہو (یعنی نہ نقصان پہنچائے نہ فائدہ نہ ثواب پائے نہ عذاب۔ ) اس کے بعد حضرت عثمان نے حضرت ابن عمر سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی (ترمذی) اور رزین کی روایت میں جو انہوں نے حضرت نافع سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ابن عمر نے کہا امیر المؤمنین میں (تو) دو آدمیوں کے درمیان (بھی) کوئی حکم و فیصلہ نہیں کروں گا (چہ جائیکہ بہت زیادہ لوگوں کا قاضی بنوں۔ حضرت عثمان نے فرمایا تمہارے والد (حضرت عمر فاروق) تو لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے؟ حضرت ابن عمر نے کہا میرے (والد کی بات تو یہ تھی کہ) اگر ان کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو وہ رسول کریم ﷺ سے پوچھ لیا کرتے تھے اور اگر رسول کریم ﷺ کو کوئی دشواری پیش آتی تو آپ ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھ لیا کرتے تھے جب کہ میں ایسے شخص کو نہیں پاتا جس سے پوچھ لیا کروں گا اور میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی اس نے بڑی ذات کی پناہ مانگی۔ نیز میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ (بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذریعہ پناہ مانگے اس کو پناہ دو۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپ مجھے قاضی مقرر کریں چناچہ حضرت عثمان نے ان کو معاف کیا، لیکن ان سے فرمایا کہ کسی) اور کو آگاہ نہ کرنا کہ وہ منصب قضا قبول نہ کرے ورنہ لوگ عام طور پر اس منصب کو قبول کرنے سے گریز کرنے لگیں گے اور نظام حکومت معطل ہو کر رہ جائے گا۔