جو نقصان کا ذمہ دار ہے وہی نفع کا بھی حق دار ہے
حضرت مخلد بن خفاف کہتے ہیں کہ میں نے ایک غلام خریدا جس کی کمائی میں وصول کرتا رہا پھر مجھے اس کے ایک ایسے عیب کا علم ہوا جو اس میں خریداری سے پہلے کا تھا اور بیچنے والے نے مجھے اس سے مطلع نہیں کیا تھا چناچہ اس غلام کے معاملہ کو میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز (خلیفہ وقت) کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے مجھے یہ فیصلہ سنایا کہ غلام کو واپس کردیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کمائی بھی واپس کردی جائے پھر میں حضرت عروہ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا جو ایک جلیل القدر تابعی اور فقہاء میں سے تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے فیصلہ سے انہیں آگاہ کیا حضرت عروہ نے فرمایا کہ میں شام کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں جاؤں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ حضرت عائشہ نے مجھ سے یہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اسی قسم کے ایک معاملہ میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے چناچہ حضرت عروہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے مطلع کیا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ ارشاد گرامی سننے کے بعد پھر مجھے یہ حکم دیا کہ میں غلام کی کمائی اس شخص سے لے لوں جسے دینے کے لئے مجھے پہلے حکم دیا گیا تھا ( شرح السنۃ)
تشریح
منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اگر وہ غلام خریدنے والے کے پاس مرجاتا یا اس میں کوئی نقص پیدا ہوجاتا تو ظاہر ہے کہ اس خریدار کا نقصان ہوتا بیچنے والے کا کچھ نہ جاتا اسی طرح غلام سے کوئی منفعت حاصل ہوگی تو اس کا حقدار خریدار ہی ہوگا بیچنے والے کا اس پر کوئی حق نہیں ہوگا۔