Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (6184 - 6254)
Select Hadith
6184
6185
6186
6187
6188
6189
6190
6191
6192
6193
6194
6195
6196
6197
6198
6199
6200
6201
6202
6203
6204
6205
6206
6207
6208
6209
6210
6211
6212
6213
6214
6215
6216
6217
6218
6219
6220
6221
6222
6223
6224
6225
6226
6227
6228
6229
6230
6231
6232
6233
6234
6235
6236
6237
6238
6239
6240
6241
6242
6243
6244
6245
6246
6247
6248
6249
6250
6251
6252
6253
6254
مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6250
وعن أبي هريرة قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال إني مجهود فأرسل إلى بعض نسائه فقالت والذي بعثك بالحق ما عندي إلا ماء ثم أرسل إلى أخرى فقالت مثل ذلك وقلن كلهن مثل ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من يضيفه ويرحمه الله فقام رجل من الأنصار يقال له أبو طلحة فقال أنا يا رسول الله فانطلق به إلى رحله فقال لامرأته هل عندك شيء قالت لا إلا قوت صبياني قال فعلليهم بشيء ونوميهم فإذا دخل ضيفنا فأريه أنا نأكل فإذا أهوى ليأكل فقومي إلى السراج كي تصلحيه فأطفئيه ففعلت فقعدوا وأكل الضيف فلما أصبح غدا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لقد عجب الله أو ضحك الله من فلان وفلانة وفي رواية مثله ولم يسم أبا طلحة وفي آخرها فأنزل الله تعالى [ ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ] متفق عليه
حضرت ابوطلحہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں (ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا کہ میں نہایت پریشان حال اور تکلیف ومشقت میں گرفتار ہون (یعنی فقر و افلاس نے مجھ کو گھیر رکھا ہے اور بھوک سے پریشان حال ہو کر اس امید پر یہاں آیاں ہوں کہ آپ ﷺ کھانے کو کچھ عطا فرمائیں گے (یہ سن کر) آنحضرت ﷺ نے کسی آدمی کو اپنی بیوی کے پاس بھیجا (اور کہلایا کہ اگر گھر میں کچھ موجود ہو تو اس مصیبت زدہ شخص کے لئے بھیج دیں) انہوں نے جواب میں بھیجا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میرے پاس ایک پانی کے سوا (کھانے پینے کی) اور کوئی چیز موجود نہیں ہے پھر آپ ﷺ نے ایک دوسری بیوی کے پاس آدمی بھیجا اور انہوں نے بھی وہی جواب بھجوایا جو پہلی بیوی نے بھیجا تھا اور اس طرح (آپ ﷺ نے ایک ایک کرکے اپنی تمام بیویوں کے پاس آدمی بھیجے اور) سب بیویوں کے ہاں ایسا ہی جواب آیا، تب رسول کریم ﷺ نے (حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ جو شخص اس آدمی کو مہمان بنائے گا اس پر اللہ تعالیٰ اپنی (خاص) رحمت نازل فرمائے گا، (یہ سنتے ہی) انصار میں کے ایک شخص کو جن کو۔۔۔۔۔ ابوطلحہ کہا جاتا تھا، کھڑے ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس آدمی کو میں اپنا مہمان بناؤں گا اور پھر ابوطلحہ ؓ اس شخص کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے گئے (گھر پہنچ کر) انہوں نے اپنی بیوی (ام سلمہ) سے دریافت کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ ان کی بیوی بولیں بس اتنا ہے کہ جو بچوں کی ضرورت کو ایک حد تک پورا کردے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا پھسلا کر سلائے رکھنا۔ اور جب ہمارا مہمان کھانے کے لئے گھر میں آئے ( اور دسترخوان پر بیٹھے) تو ایسا ظاہر کرنا کہ گویا ہم بھی اس کے ساتھ (اسی کھانے میں) کھا رہے ہیں اور جوں ہی ہمارا مہمان لقمہ اٹھانے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھائے تو تم یہ ظاہر کرکے کہ جیسے چراغ کی بتی کو ٹھیک کرنے اور اس کی روشنی بڑھانے کا ارادہ ہے چراغ کی طرف جانا ( اور آہستہ سے پھونک مار کر یا کسی اور طرح سے) چراغ گل کردینا۔ (تاکہ اندھیرا ہوجائے اور مہمان پر یہ ظاہر نہ ہو کہ ہم کھانا نہیں کھا رہے ہیں) چناچہ ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور یہ ہوا (کہ دسترخوان پر) بیٹھے تو وہ تینوں (یعنی ابوطلحہ ان کی بیوی اور مہمان) لیکن کھانا صرف مہمان نے کھایا، ان دونوں میاں بیوی نے بھوکے رات گزاری، پھر جب صبح ہوئی اور ابوطلحہ ؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ﷺ کو (چونکہ بذریعہ کشف یا بذریعہ وحی یہ سارا قصہ معلوم ہوچکا تھا اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا! فلاں مرد (یعنی ابوطلحہ) اور فلاں عورت (یعنی ابوطلحہ کی بیوی ام سلیم) کا یہ کام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند لگا یا یہ فرمایا کہ (ان دونوں کے) اس کام پر اللہ تعالیٰ کو ہنسی آگئی (مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان دونوں سے بہت خوش ہوا) ابوہریرہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ( جو لفظ ومعنا اسی روایت کی طرح ہے) ابوطلحہ کے نام کا ذکر نہیں ہے (یعنی اس میں یقال لہ ابوطلحہ کے الفاظ نہیں ہے) نیز اس روایت کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اسی واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰ ي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) 69۔ الحشر 9) یعنی اور وہ لوگ جو اپنے آپ پر دوسروں کو (یعنی اپنے مہمانوں کو یا کسی بھی حاجب مند کو) ترجیح دیتے ہیں اگر وہ خود حاجت مند اور بھوکے ہوں الخ۔ (بخاری ومسلم)
تشریح
سب بیویوں کے ہاں سے ایسا ہی جواب آیا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ فتح خیبر اور غنائم و اموال کی آمد شروع ہوجانے سے پہلے کا ہے، جب کہ آنحضرت ﷺ اور تمام ازواج مطہرات کا بہت ہی تنگی ترشی کے ساتھ گزارا ہوتا تھا اور زیادہ تر بےسروسامانی کی حالت رہا کرتی تھی جو بچوں کی ضرورت کو ایک حد پورا کردے مطلب یہ کہ اس وقت گھر میں کھانے کی قسم سے جو کچھ ہے وہ بس اس قلیل مقدار کی صورت میں ہے جو چھوٹے بچوں کے لئے اس ضرورت سے اٹھا کر رکھ دیا گیا ہے کہ رات یا دن میں ان کو بار بار بھوک لگتی ہے اور وہ کسی وقت بھی کھانا مانگنے لگتے ہیں یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ وہ کھانا بچوں کو اسی وقت کے کھانے کے لئے ہوتا تو پھر مہمان کو نہیں کھلا سکتے تھے، کیونکہ بچوں کو بھوکا رکھ کر مہمان کو کھلانا جائز نہیں ہے،۔ کسی طرح بہلا پھسلا کر سلائے رکھنا یعنی بچے اگر جاگ رہے ہوں تو ان کو بہلا پھسلا کر جلدی سے سلا دو یہ کہ بچے اگر سو رہے ہوں تو کوشش کرنا کہ وہ جاگنے نہ پائیں تاکہ مہمان کو کھاتے دیکھ کر اس کھانے میں سے کچھ مانگنے نہ لگیں جیسا کہ چھوٹے بچوں کی عادت ہوتی ہے، گویا ہم بھی اس کے ساتھ کھا رہے ہیں حضرت ابوطلحہ نے یہ بات اس لئے کہی کہ کھانا اتنی مقدار میں تو تھا نہیں کہ مہمان کے ساتھ وہ دونوں بھی کھا سکتے، ادھر اگر وہ دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھتے تو مہمان کو کھانے میں تکلف ہوتا، کیونکہ مہمان اگر دیکھتا ہے کہ صاحب خانہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک نہیں ہے، تو وہ کھاتے ہوئے جھجک محسوس کرتا اور اس کو خلجان ہوتا ہے کہ کہیں کھانے کی کمی کی وجہ سے تو صاحب خانہ میرے ساتھ نہیں کھارہا ہے، واضح رہے کہ یہ واقعہ غالباً پردہ کا حکم نافذ ہونے سے پہلے کا ہے اسی لئے حضرت ابوطلحہ کو اپنے مہمان کو گھر میں لانے اور بیوی کے سامنے کرنے میں کوئی تکلف نہیں ہوا۔
Top