Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (2653 - 3087)
Select Hadith
2653
2654
2655
2656
2657
2658
2659
2660
2661
2662
2663
2664
2665
2666
2667
2668
2669
2670
2671
2672
2673
2674
2675
2676
2677
2678
2679
2680
2681
2682
2683
2684
2685
2686
2687
2688
2689
2690
2691
2692
2693
2694
2695
2696
2697
2698
2699
2700
2701
2702
2703
2704
2705
2706
2707
2708
2709
2710
2711
2712
2713
2714
2715
2716
2717
2718
2719
2720
2721
2722
2723
2724
2725
2726
2727
2728
2729
2730
2731
2732
2733
2734
2735
2736
2737
2738
2739
2740
2741
2742
2743
2744
2745
2746
2747
2748
2749
2750
2751
2752
2753
2754
2755
2756
2757
2758
2759
2760
2761
2762
2763
2764
2765
2766
2767
2768
2769
2770
2771
2772
2773
2774
2775
2776
2777
2778
2779
2780
2781
2782
2783
2784
2785
2786
2787
2788
2789
2790
2791
2792
2793
2794
2795
2796
2797
2798
2799
2800
2801
2802
2803
2804
2805
2806
2807
2808
2809
2810
2811
2812
2813
2814
2815
2816
2817
2818
2819
2820
2821
2822
2823
2824
2825
2826
2827
2828
2829
2830
2831
2832
2833
2834
2835
2836
2837
2838
2839
2840
2841
2842
2843
2844
2845
2846
2847
2848
2849
2850
2851
2852
2853
2854
2855
2856
2857
2858
2859
2860
2861
2862
2863
2864
2865
2866
2867
2868
2869
2870
2871
2872
2873
2874
2875
2876
2877
2878
2879
2880
2881
2882
2883
2884
2885
2886
2887
2888
2889
2890
2891
2892
2893
2894
2895
2896
2897
2898
2899
2900
2901
2902
2903
2904
2905
2906
2907
2908
2909
2910
2911
2912
2913
2914
2915
2916
2917
2918
2919
2920
2921
2922
2923
2924
2925
2926
2927
2928
2929
2930
2931
2932
2933
2934
2935
2936
2937
2938
2939
2940
2941
2942
2943
2944
2945
2946
2947
2948
2949
2950
2951
2952
2953
2954
2955
2956
2957
2958
2959
2960
2961
2962
2963
2964
2965
2966
2967
2968
2969
2970
2971
2972
2973
2974
2975
2976
2977
2978
2979
2980
2981
2982
2983
2984
2985
2986
2987
2988
2989
2990
2991
2992
2993
2994
2995
2996
2997
2998
2999
3000
3001
3002
3003
3004
3005
3006
3007
3008
3009
3010
3011
3012
3013
3014
3015
3016
3017
3018
3019
3020
3021
3022
3023
3024
3025
3026
3027
3028
3029
3030
3031
3032
3033
3034
3035
3036
3037
3038
3039
3040
3041
3042
3043
3044
3045
3046
3047
3048
3049
3050
3051
3052
3053
3054
3055
3056
3057
3058
3059
3060
3061
3062
3063
3064
3065
3066
3067
3068
3069
3070
3071
3072
3073
3074
3075
3076
3077
3078
3079
3080
3081
3082
3083
3084
3085
3086
3087
سنن النسائی - زینت (آرائش) سے متعلق احادیت مبارکہ - حدیث نمبر 4406
عن علي رضي الله عنه قال : ما كتبنا عن رسول الله صلى الله عليه و سلم إلا القرآن وما في هذه الصحيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : المدينة حرام ما بين عير إلى ثور فمن أحدث فيها حدثا أو آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل ومن والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل وفي رواية لهما : من ادعى إلى غير أبيه أو تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل
حرم مدینہ کی حدود
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے طرف سے علاوہ قرآن اور ان باتوں کے جو اس صحیفہ میں ہیں اور کچھ نہیں لکھا ہے! حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے اس صحیفہ میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی لکھا ہے کہ مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، لہٰذا جو شخص مدینہ میں بدعت پیدا کرے یعنی ایسی بات کہے یا رائج کرے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اس شخص کے نہ (کامل طور) فرض (اعمال) قبول کئے جاتے ہیں نہ نفل! مسلمانوں کے عہد ایک ہے جس کے لئے ان کا ادنیٰ شخص بھی کوشش کرسکتا ہے لہٰذا جو شخص کسی مسلمان کے عہد کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل! جو شخص اپنے ساتھوں کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے موالات (دوستی) قائم کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب آدمیوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل! (بخاری ومسلم) بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جو شخص اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کرے (یعنی یوں کہے کہ میں زید کا بیٹا ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا بیٹا ہو) یا اپنے مالک کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے (مثلاً یوں کہے کہ میں زید کا غلام یا خدمت گار ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا غلام یا خدمت گار ہو) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل۔
تشریح
کچھ لوگوں نے آپس میں کہا ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب بطور خاص عنایت کی ہے جس کا علم اور کسی کو نہیں ہے، جب یہ بات حضرت علی ؓ نے سنی تو اس کی تردید کی اور فرمایا کہ میں نے تو آنحضرت ﷺ کی طرف سے صرف قرآن کریم لکھا ہے یا پھر چند احکام پر مشتمل وہ احادیث لکھی ہیں جو اس صحیفہ میں ہیں، ان کے علاوہ نہ تو میں نے کوئی اور کتاب لکھی ہے اور نہ آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کے علاوہ مجھے اور کوئی کتاب دی ہے، چناچہ اس صحیفہ سے مراد وہ لکھا ہوا ورق تھا جس میں آنحضرت ﷺ نے دیات کے احکام اور چند دوسرے احکام تحریر کرائے تھے اور جو حضرت علی ؓ کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا۔ اس صحیفہ یا ورق میں دیات کے احکام کے علاوہ اور جو احکام لکھے ہوئے تھے ان میں مدینہ کے بارے میں بھی یہی حکم تھا، جو حضرت علی ؓ نے مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا۔ لہٰذا مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ منورہ اور اس کے گرداگرد زمین کا وہ حصہ جو عیر اور ثور کے درمیان ہے بزرگ قدر اور باعظمت ہے! اس میں ایسی چیزوں کا ارتکاب ممنوع ہے، جو اس مقدس شہر اور اس کی باعظمت زمین کی توہین و حقارت کا سبب ہوں، لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک حرام سے مراد حرم ہے یعنی مدینہ، حرم مکہ کی مانند ہے کہ جو چیزیں مثلاً شکار وغیرہ حرم مکہ میں حرام ہیں وہ مدینہ میں بھی حرام ہیں، اس طرح ان کے ہاں حرم مدینہ کی حدود عیر اور ثور نامی پہاڑ ہیں جو مدینہ مطہرہ کے دونوں طرف واقع ہیں۔ لایقبل منہ صرف ولاعدل، میں لفظ صرف کے معنی فرض بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور نفل بھی نیز توبہ اور شفاعت بھی اس لفظ کے معنی ہوسکتے ہیں، اس طرح لفظ عدل کے معنی نفل بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور فرض بھی۔ نیز فدیہ اور بعض حضرات کے قول کے مطابق شفاعت، یا توبہ، بھی اس لفظ کے معنیٰ ہوسکتے ہیں۔ حضرت علی ؓ نے اس صحیفہ میں سے آنحضرت ﷺ کا لکھوایا ہو ادوسرا حکم یہ بیان کیا کہ مسلمانوں کا امان ایک شئے واحد کی مانند ہے کہ اس کا تعلق ملت کے ہر فرد سے ہوسکتا ہے خواہ وہ برتر ہو یا کمتر، مثلاً جس طرح کسی اعلیٰ حیثیت کے مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو عہد امان دے اسی طرح کسی ادنیٰ ترین مسلمان کو بھی عہد امان دینے کا اختیار حاصل ہے اور اس کے عہد امان کا لحاظ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، گویا اس حکم کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی حقیر و کمتر ہو (جیسے غلام وغیرہ) کسی غیر مسلم کو امان دے اور اس سے اس کی جان و مال کی حفاظت کا عہد کرے، اس کو اپنی پناہ میں لے لے تو اس کے عہد کو توڑنا کسی دوسرے مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے عہد امان کو پامال کرے گا بایں طور کہ اس کے زیر امان غیر مسلم کی جان و مال کو نقصان پہنچائے تو وہ اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام مسلمانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ حضرت علی ؓ نے اس صحیفہ کا ایک حکم یہ بھی بیان کیا کہ جو شخص اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے سلسلہ موالات یعنی رابطہ دوستی قائم کرے وہ بھی لعنت کا مستحق ہوتا ہے! اس ضمن میں کچھ تفصیل ہے اس کو جان لینا چاہئے ولاء کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم تو ولاء موالات ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا اہل عرب کا یہ معمول تھا کہ کچھ لوگ آپس میں دوستی کا رشتہ قائم کر کے یہ عہد کرتے اور قسم کھاتے تھے کہ ہم دوسرے کے بھلے برے میں شریک رہیں گے، زندگی کے ہر مرحلہ پر ہر ایک دوسرے کا ممد و معاون رہے گا، آپس میں ایک دوسرے کے دوست سے دوستی رکھیں گے اور دشمن کو دشمن سمجھیں گے۔ اسی کو ولاء موالات کہتے ہیں۔ ایام جاہلیت میں تو آپس کے عہد و پیمان کا تعلق صحیح و غلط، حق و ناحق، ہر معاملہ سے ہوتا تھا، ایک شخص چاہے حق پر ہو چاہے ناحق پر، اس کے دوسرے ساتھی اس کی مدد ہر حال میں کرتے تھے۔ لیکن جب اسلام کی روشنی نے عہد جاہلیت کی ظلمت کو ختم کیا تو مسلمانوں نے اس میں اتنی ترمیم کی کہ ان کا ایک دوسروں کے ساتھ تعان و اشتراک صرف صحیح اور حق معاملہ تک محدود رہتا لیکن اس کے باوجود یہ معمول جاری رہا یہاں تک کہ اکثر اہل عجم، عرب میں آ کر صحابہ سے اس کا سلسلہ قائم کرتے تھے۔ دوسری قسم ولاء عتاقت ہے اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کرتا ہے تو اس غلام پر یہ حق ولاء ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کے عصبہ (بیٹا پوتا وغیرہ) نہ ہونے کی صورت میں وہ آزاد کرنے والا اس کا وارث بن جاتا ہے لہٰذا ذوی الفروض (باپ دادا وغیرہ سے جو کچھ بچتا ہے وہ اس کا مالک ہوتا ہے۔ اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر اب سمجھئے کہ حدیث میں مذکورہ موالات سے ولاء کی پہلی قسم بھی مراد ہوسکتی ہے، اس صورت میں اس حکم کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص کے موالی یعنی مذکورہ بالا عہد و پیمان کے مطابق دوست اور رفقاء ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ان دوستوں کی اجازت کے بغیر کسی اور جماعت کو اپنا موالی (دوست) نہ بنائے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک طرح کی عہد شکنی بھی ہوتی ہے اور مسلمانوں کو قلبی اذیت اور روحانی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی ہوتا ہے جو کسی مسلمان کے لئے قطعا مناسب نہیں ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ موالات سے ولاء کی دوسری قسم مراد ہو، اس کے پیش نظر معنی یہ ہوں گے کہ جو شخص اپنی آزادی کی نسبت آزاد کرنے والے کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ مستحق لعنت ہوتا ہے جیسا کہ اپنے باپ کی بجائے کسی غیر کی طرف اپنی نسبت کرنے والا شخص مستحق لعنت ہوتا ہے اس صورت میں بغیر اذن موالیہ کی قید اکثر کے اعتبار سے ہوگی کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر آزادی یافتہ غلام اپنے مالک سے اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی نسبت اس کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ اس کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مالک اجازت دے دے تو پھر غیر مالک کی طرف نسبت کرنا درست ہوجائے گا کیونکہ پھر جھوٹ کی صورت بن جائے گی جو ویسے بھی جائز نہیں ہے۔ شیعوں کے قول کی تردید شیعہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ سے ایک وصیت نامہ مرتبہ کرایا تھا، جس میں جہاں اور بہت سی خاص باتیں تھیں وہیں حضرت علی ؓ کو اپنا خلیفہ اول مقرر کرنے کی ہدایت بھی تھی۔ اس وصیت نامہ کا علم اہل بیت میں سے چند مخصوص افراد (مثلاً حضرت علی ؓ وحضرت فاطمہ ؓ وغیرہ) کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا، ظاہر ہے کہ شیعہ حضرات کا یہ قول اختراع سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ مذکورہ بالا حدیث اس قول کی تردید میں مضبوط دلیل ہے، چناچہ حضرت علی ؓ خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر وثواب کا باعث بھی۔
Top