روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور اس کا پیدائشی حق بھی
حضرت ابوعسیب ؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ) رات کے وقت رسول کریم ﷺ گھر سے باہر نکلے اور میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے بلایا میں (اپنے گھر سے) نکل کر آپ ﷺ کے ساتھ ہو لیا، پھر آپ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کو بلایا وہ بھی (اپنے گھر سے) نکل کر ساتھ ہو لئے، اس کے بعد آپ ﷺ حضرت عمر ؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کو بلایا وہ بھی (اپنے گھر سے) نکل کر آپ ﷺ کے ساتھ ہو لئے پھر آپ ﷺ (ہم سب کو لے کر) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک باغ میں پہنچے جو ایک انصاری (صحابی) کا تھا آپ ﷺ نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ ہمیں کھجوریں کھلاؤ۔ باغ کے مالک نے کھجوروں کا ایک خوشہ لا کر (ہمارے سامنے) رکھ دیا اس میں سے رسول کریم ﷺ نے (بھی) کھایا اور آپ ﷺ کے صحابہ (یعنی ہم لوگوں) نے (بھی) کھایا، پھر آپ ﷺ نے ٹھنڈا پانی منگوایا جس کو (آپ ﷺ نے اور ہم نے) پیا اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ یقینا قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ نے کھجوروں کا خوشہ لیا اور اس کو زمین پردے مارا یہاں تک کہ اس کی کچی کھجوریں رسول کریم ﷺ کے سامنے بکھر گئیں، پھر انہوں نے عرض کیا کہ، یا رسول اللہ! ﷺ کیا قیامت کے دن ہم سے اس کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! (ہر نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ البتہ تین چیزوں کے بارے میں سوال نہیں ہوگا ایک تو کپڑا کہ جس سے آدمی اپنا ستر ڈھانکے اور دوسری روٹی کا ٹکرا کہ جس کے ذریعہ اپنی بھوک کو دور کرے اور تیسرے بل کہ جس میں گرمی اور سردی سے ( بچنے کے لئے) گھس جائے ( احمد بیہقی)
تشریح
ایک انصاری کے بارے میں احتمال ہے کہ وہی ابوالہیثم ہوں جن کے باغ میں جانے کا واقعہ تو وہ ہے جس کا ذکر پہلی فصل کی حدیث میں بھی گزر چکا ہے اور یہ واقعہ (جو یہاں حدیث میں بیان کیا گیا ہے دوسری مرتبہ کا ہے گویا ایک واقعہ تو وہ ہے جس کا ذکر پہلی فصل کی حدیث (نمبر ٣) میں گزرا اور دوسرا واقعہ یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ انصاری سے مراد ابوالہیثم نہ ہوں بلکہ کوئی دوسرے انصاری صحابی مراد ہوں۔ اور اس کو زمین پردے مارا حضرت عمر ؓ کا یہ عمل گویا ان حالت جذب کا مظہر تھا قیامت کے دن ہر چھوٹی بڑی چیز اور ہر طرح کے جزئی و کلی امور کے سوال و پرسش کے سلسلہ میں خوف اللہ اور مواخذہ آخرت کی ہیبت کی وجہ سے ان پر طاری ہوگئی تھی۔ حجر کا لفظ حاء کے پیش اور جیم کے سکون کے ساتھ بھی صحیح ہے، جس کے معنی حجرہ (کمرہ) کے ہیں لیکن مشکوٰۃ کے ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ حجر یعنی جیم کے پیش اور حاء کے سکون کے ساتھ منقول ہے جس کے معنی سوراخ اور بل کے آتے ہیں، اس صورت میں یہ مراد ہوگا کہ ایک ایسا چھوٹا سا مکان جس کو اس کے انتہائی، چھوٹا اور حقیر ہونے کی وجہ سے چوہے کے بل سے تعبیر کیا جاسکتا ہو اور جس میں سردی و گرمی سے بچاؤ کے لئے مشکل اور تنگی کے ساتھ رہا جاسکتا ہو۔