مؤمن ایک آنت سے اور کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص تھا، جو (پہلے تو) بہت زیادہ کھایا کرتا تھا، مگر جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، چناچہ نبی کریم ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مؤمن تو ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے ( بخاری) اور مسلم نے اس روایت کو حضرت ابوموسی اور حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کیا ہے جس میں (یہ واقعہ مذکور نہیں ہے بلکہ) محض آنحضرت ﷺ کا ارشاد مذکور ہے، لیکن مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں یوں ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے ہاں ایک مہمان آیا جو کافر تھا، رسول کریم ﷺ نے اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا، بکری دوہی گئی اور اس کافر نے اس دودھ کو پی لیا، پھر آپ ﷺ کے حکم سے دوسری بکری دوہی گئی، وہ اس دودھ کو بھی پی گیا، پھر جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہوگیا، رسول کریم ﷺ نے (اس وقت بھی) اس کے لئے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا۔ بکری دوہی گئی اور اس نے اس کا دودھ پی لیا پھر آپ ﷺ نے دوسری بکری دوہنے کا حکم دیا (بکری دوہی گئی) لیکن (اب) وہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا، رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مؤمن ایک آنت میں میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔
تشریح
کہا جاتا ہے کہ انسان کے پیٹ میں آنتیں ہوتی ہیں لیکن اس سے قطع نظر یہاں ایک آنت اور سات آنت سے مراد قلب حرص اور کثرت حرص ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کھانے پینے میں کم حرص رکھتا ہے اور کافر زیادہ حرص رکھتا ہے اور یہ بات اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یا اس مخصوص شخص کی حالت بیان کرنا مراد ہے، جس کا روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوا تو کم کھانے لگا، لیکن جب کافر تھا تو زیادہ کھاتا، یا کامل الایمان مؤمن مراد ہے، کہ وہ ذکر الہٰی کی برکت اور نور و معرفت ایمان کے سبب ہمہ وقت سیر رہتا ہے کہ اس کو نہ کھانے پینے کی حرص ہوتی ہے اور نہ کھانے پینے کے اہتمام کی طرف رغبت، اس کے برعکس کافر کا حال دوسرا ہوتا ہے! درحقیت اس حدیث میں یہ تنبیہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر و قناعت کو لازم جانے، زہد و ریاضت کی راہ کو اختیار کرے، خوردونوش کی اسی حد پر اکتفا کرے جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہو اور معدے کو اتنا خالی رکھے۔ جو نورانیت دل، صفائی باطن اور شب بیداری وغیرہ کے لئے ممد و معاون ہو۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک فقیر حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آیا اور بہت زیادہ کھا کر اٹھا، حضرت عمر ؓ نے جب اس کو اتنا زیادہ کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کے آئندہ اس کو میرے پاس نہ آنے دیا جائے، علماء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب اس فقیر نے اس قدر غیر معمولی طور پر کھایا تو گویا وہ کفار کے مشابہ ہوا اور جو شخص کافروں کی مشابہت اختیار کرے اس سے ملنا جلنا ترک کردینا چاہئے، واضح رہے کہ کم کھانے کی عادت اختیار کرنا، عقلاء باہمت اور اہل حقیقت کے نزدیک مستحسن و محمود ہے اور اس کے برعکس مذموم ہے، لیکن وہ بھوک جو حد افراط کو پہنچ جائے، ضعف بدن اور قوائے جسمانی کے اختلال کا باعث ہو اور جس کی وجہ سے دین و دنیا کے امور کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا ہو، وہ ممنوع اور طریقہ حکمت کے منافی ہے۔