Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4067 - 4162)
Select Hadith
4067
4068
4069
4070
4071
4072
4073
4074
4075
4076
4077
4078
4079
4080
4081
4082
4083
4084
4085
4086
4087
4088
4089
4090
4091
4092
4093
4094
4095
4096
4097
4098
4099
4100
4101
4102
4103
4104
4105
4106
4107
4108
4109
4110
4111
4112
4113
4114
4115
4116
4117
4118
4119
4120
4121
4122
4123
4124
4125
4126
4127
4128
4129
4130
4131
4132
4133
4134
4135
4136
4137
4138
4139
4140
4141
4142
4143
4144
4145
4146
4147
4148
4149
4150
4151
4152
4153
4154
4155
4156
4157
4158
4159
4160
4161
4162
مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 2957
شرکت اور وکالت کا بیان
لغت میں شرکت کے معنی ہیں ملانا لیکن اصطلاح شریعت میں شرکت کہتے ہیں دو آدمیوں کے درمیان ایک ایسا مثلًا تجارتی عقد و معاملہ ہونا جس میں وہ اصل اور نفع دونوں میں شریک ہوں۔ شرکت کی دو قسمیں ہیں شرکت ملک اور شرکت عقد شرکیت ملک اسے کہتے ہیں کہ دو آدمی یا کئی آدمی بذریعہ خرید یا ہبہ یا میراث کسی ایک چیز کے مالک ہوں یا دو شخص مشترک طور پر کسی مباح چیز کو حاصل کریں مثلًا دو آدمی مل کر شکار کریں اور وہ شکار دونوں کی مشترک ملکیت ہو یا دو آدمیوں کا ایک ہی جنس کا الگ الگ مال ایک دوسرے میں اس طرح مل جائے کہ ان دونوں کے مال کا امتیاز نہ ہو سکے۔ مثلا زید کا دودھ بکر کے دودھ میں مل جائے یا وہ دونوں اپنے اپنے مال کو قصدًا ایک دوسرے کے مال میں ملا دیں یہ سب شریک ملک کی صورتیں ہیں۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر شریک اپنے دوسرے شریک کے حصے میں اجنبی آدمی کی طرح ہے اور ہر شریک اپنا حصہ اپنے دوسرے شریک کی اجازت کے بغیر اس شریک کو یا کسی دوسرے شخص یعنی غیر شریک کو فروخت کرسکتا ہے البتہ آخری دونوں صورتوں میں (یعنی ایک دوسرے کے مال کے آپس میں مل جانے یا اپنے اپنے مال کو ایک دوسرے کے مال میں قصدًا ملا دینے کی صورت میں کوئی بھی شریک اپنا حصہ کسی دوسرے شخص یعنی غیرشریک کو اپنے دوسری شریک کی اجازت کے بغیر نہیں بیچ سکتا۔ شرکت عقد کا مطلب ہے شرکاء کا ایجاب و قبول کے ذریعے اپنے اپنے حقوق و اموال کو متحد کردینا اس کی صورت یہ ہے کہ مثلا ایک دوسرے سے یہ کہے کہ میں نے اپنے فلاں حقوق اور فلاں معاملات یعنی تجارت وغیرہ میں تمہیں شریک کیا اور دوسرا کہے کہ میں نے قبول کیا اس طرح شرکت عقد کا رکن تو ایجاب و قبول ہے اور اس کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ معاہدہ شرکت میں ایس کوئی دفعہ مطلقًا شامل نہ ہو جو شرکت کے بنیادی اصولوں کو فوت کر دے جیسے شرکاء میں سے کسی ایک کا فائدے میں سے کچھ حصے کو اپنے لئے متعین و مخصوص کرلینا مثلا کسی تجارت میں دو آدمی شریک ہوں اور ان میں سے کوئی ایک شریک یہ شرط عائد کر دے کہ اس تجارت سے حاصل ہونیوالے فائدے میں سے پانچ سو روپے ماہوار لیا کروں گا۔ یہ شرک مشترک ومتحد معاملات کے بالکل منافی ہے جو شرکت کے بنیادی اصول و مقاصد ہی کو فوت کردیتی ہے اس لئے معاہد شرکت میں ایس کسی دفعہ کا شامل نہ ہونا شرکت کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ پھر شرکت عقد کی چار قسمیں ہیں (١) شرکت مفاوضہ (٢) شرکت عنان (٣) شرکت صنائع والتقبل (٤) اور شرکت وجوہ شرکت مفاوضہ تو یہ ہے کہ دو شخص یہ شرط کریں یعنی آپس میں ٹھہرا لیں کہ مال میں تصرف میں مفاوضہ میں دونوں شریک رہیں گے لیکن اس شرکت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں دین و مذہب میں بھی یکساں اور برابر ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت کو لازم کردیتی ہے یعنی شرکت مفاوضہ میں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل اور کفیل ہوتے ہیں لہذا یہ شرکت مسلمان اور ذمی کے درمیان جائز نہیں ہوتی کیونکہ دین و مذہب کے اعتبار سے دونوں مساوی اور یکساں نہیں ہیں اسی طرح غلام اور آزاد کے درمیان اور بالغ و نابالغ کے درمیان بھی یہ شرکت جائز نہیں کیونکہ یہ تصرف میں مساوی و یکساں نہیں ہیں۔ اس شرکت کے معاہدہ و شرائط میں لفظ مفاوضت یا اس کے تمام مقتضیات کو بیان و واضح کردینا ضروری ہے اس شرکت میں عقد و معاہدہ کے وقت شرکاء کا اپنا اپنا مال دینا یا اپنے اپنے مال کو ملانا شرط نہیں ہے۔ اس شرکت میں شرکاء چونکہ ایک دوسرے کے کفیل ووکیل ہوتے ہیں اس لئے اگر اس میں کوئی بھی اپنے بال بچوں کے کھانے اور کپڑے کے علاوہ جو کچھ خریدے گا وہ تمام شرکاء کی ملکیت ہوگا۔ حضرت امام محمد کے نزدیک شرکت مفاوضت اور عنان صرف ایسے سرمایہ اور مال میں صحیح ہوسکتی ہے جو روپے اشرفی اور رائج الوقت سکوں کی شکل میں ہو ہاں سونے اور چاندی کے ڈلوں اور ٹکڑوں میں بھی جائز ہے بشرطیکہ ان کے ذریعے لین دین ہوتا ہو اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک وارث یا کسی اور ذریعے سے کسی ایسے مال کا مالک ہوا جس میں مفاوضت درست ہوسکتی ہے جیسے روپے اور اشرفی وغیرہ تو شرکت مفاوضت باطل ہو کر شرکت عنان ہوجائے گی اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک کسی ایسے مال کا وارث ہوگیا جس میں شرکت مفاوضت نہیں ہوسکتی جیسے اسباب مکان اور زمین وغیرہ تو شرکت مفاوضت باقی رہے گی۔ شرکت عنان یہ ہے کہ دو آدمی ایک خاص طور کے معاملے مثلا تجارت میں شریک ہوں اور وہ دونوں مذکورہ بالا چیزوں یعنی تصرف اور دین و مذہب وغیرہ میں یکساں و برابر ہوں یا یکساں و برابر نہ ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت کو تو لازم کرتی ہے مگر کفالت کو لازم نہیں کرتی۔ ہاں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ کفیل وامین بھی ہوتے ہیں مگر اسی کام میں جس میں وہ شریک ہوں۔ شرکت صنائع والتقبل یہ ہے کہ دو پیشہ ور مثلا دو درزی یا دو رنگریز اس شرط پر شرکت میں کام کریں کہ دونوں شریک کام لیں گے اور دونوں اس کام کو مل جل کر کریں گے اور پھر جو اجرت حاصل ہوگی اسے دونوں تقسیم کریں گے۔ اگر ان کے معاہدہ شرکت میں یہ شرط ہو کہ کام تو دونوں ادھوں آدھ کریں گے مگر نفع میں سے ایک تو دو تہائی لے گا اور دوسرا ایک تہائی تو یہ شرط جائز ہے۔ دونوں شرکاء میں سے جو بھی کسی کا کام لے گا اس کو کرنا دونوں کے لئے ضروری ہوگا یہ نہیں کہ جس شریک نے کام لیا ہو وہی اسے کرے بھی اسی طرح ان کے یہاں کام کرانے والا دونوں شرکاء میں سے کسی سے بھی اپنا کام طلب کرسکتا ہے ایسے ہی دونوں شرکاء میں سے ہر ایک کو مساوی طور پر یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی کام کی اجرت حاصل کرلے اور ان میں سے کسی ایک کو اجرت دینے والا بری الذمہ ہوجائیگا۔ کام کے منافع اور کمائی میں دونوں شریک حصہ دار ہوں گے خواہ کام دونوں کریں یا صرف ایک کرے۔ شرکت وجوہ یہ ہے کہ ایسے دو آدمی جن کے پاس اپنا کوئی سرمایہ اور مال نہ ہو اس شرط پر مشترک کاروبار کریں کہ دونوں اپنی اپنی حیثیت اور اپنے اپنے اعتبار پر قرض سامان لا کر فروخت کریں گے اور اس کا نفع آپس میں تقسیم کریں گے۔ اگر ان دونوں کی شرکت میں مفاوضت کی شرط ہوگی تو وہ صحیح ہوجائے گی اور اگر وہ شرکت کو بلا شرط مفاوضت یعنی مطلق رکھیں گے تو ان کی یہ شرکت بطور عنان ہوگی یہ شرکت تجارت کے لئے خریدے گئے مال میں وکالت کو لازم کرتی ہے یعنی وہ اپنے یہاں فروخت کرنے کے لئے جو مال خرید کر لائیں گے اس میں وہ ایک دوسرے کے وکیل ہوں گے لہذا اگر دونوں میں یہ شرط طے پائی ہو کہ تجارت کے لئے جو مال خریدا جائے گا وہ دونوں کا آدھوں آدھ ہوگا تو اس کے نفع میں بھی دونوں آدھوں آدھ کے حقدار ہوں گے اور اگر یہ شرط طے پائے کہ جو مال خرید کر لایا جائے گا اس میں سے ایک تو نفع میں دو حصے لے لے اور دوسرا ایک حصہ لے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نفع کا استحقاق ضمان یعنی ذمہ داری کی وجہ سے ہوتا ہے اور ضمان اس خریدی ہوئی چیز کی ملک کے تابع ہے مثلا اگر ان میں سے کوئی مال کے نصف حصہ کا مالک بنا ہے تو اسے نصف قیمت ادا کرنی ہوگی اور جو دو حصوں کا مالک بنا ہے اسے دو حصوں کی قیمت ادا کرنی ہوگی اس لئے نفع بھی ملکیت کے مطابق ہی قرار پائیگا جو جتنے حصہ کا مالک بنے گا اسے اتنا ہی نفع ملے گا اور اس چیز میں شرکت جائز نہیں ہے جس میں وکالت صحیح نہ ہوتی ہو جیسے لکڑی کاٹنا گھاس کھودنا، شکار کرنا اور پانی لانا دونوں میں سے جو شخص پانی لائے گا وہی اس کا مالک ہوگا اگر دوسرا اس میں اس کی مدد کرے گا تو وہ رائج اجرتوں کے مطابق اپنی اجرت پانے کا مستحق ہوگا۔ وکالت کے معنی ہیں اپنے حقوق ومال کے تصرف یعنی لینے دینے میں کسی دوسرے کو اپنا قائم مقام بنانا وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ مؤ کل یعنی کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنانیوالا) تصرف یعنی لین دین کا مالک ہو اور جس شخص کو وکیل بنایا جا رہا ہو وہ اس معاملہ کو جانتا ہو جس میں وہ وکیل بنایا گیا ہے۔ اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز ہے اس میں دوسرے کو وکیل کرنا بھی جائز اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز نہیں ہے اس میں وکیل کرنا بھی جائز نہیں ہے مثلا کوئی شخص شراب یا سور وغیرہ حرام چیزوں کی خریدو فروخت کے لئے کسی کو وکیل کر دے تو یہ درست نہیں ہوگا تمام حقوق کو ادا کرنے اور ان کے حاصل کرنے میں وکیل کرنا جائز ہے اسی طرح حقوق پر قبضہ کرنے کے لئے بھی وکیل کرنا جائز ہے مگر حدود اور قصاص میں جائز نہیں ہے کیونکہ ان کی انجام دہی پر باوجود مؤ کل کے اس جگہ موجود نہ ہونے کے لئے وکالت درست نہیں ہوتی۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ حقوق کی جواب دہی کے لئے وکیل کرنا فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے ہاں اگر مؤ کل بیمار ہو یا تین منزل کی مسافت یا اس سے زائد کی دوری پر ہو تو جائز ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کہتے ہیں کہ فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر بھی حقوق کی جاب دہی کے لئے وکیل کرنا جائز ہے شرکت اور وکالت کے بارے میں یہ چند اصول و مسائل فقہ کی کتابوں سے تلخیص کر کے لکھ دئیے ہیں مزید تفصیل کے لئے اہل علم فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
Top