Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (702 - 1228)
Select Hadith
702
703
704
705
706
707
708
709
710
711
712
713
714
715
716
717
718
719
720
721
722
723
724
725
726
727
728
729
730
731
732
733
734
735
736
737
738
739
740
741
742
743
744
745
746
747
748
749
750
751
752
753
754
755
756
757
758
759
760
761
762
763
764
765
766
767
768
769
770
771
772
773
774
775
776
777
778
779
780
781
782
783
784
785
786
787
788
789
790
791
792
793
794
795
796
797
798
799
800
801
802
803
804
805
806
807
808
809
810
811
812
813
814
815
816
817
818
819
820
821
822
823
824
825
826
827
828
829
830
831
832
833
834
835
836
837
838
839
840
841
842
843
844
845
846
847
848
849
850
851
852
853
854
855
856
857
858
859
860
861
862
863
864
865
866
867
868
869
870
871
872
873
874
875
876
877
878
879
880
881
882
883
884
885
886
887
888
889
890
891
892
893
894
895
896
897
898
899
900
901
902
903
904
905
906
907
908
909
910
911
912
913
914
915
916
917
918
919
920
921
922
923
924
925
926
927
928
929
930
931
932
933
934
935
936
937
938
939
940
941
942
943
944
945
946
947
948
949
950
951
952
953
954
955
956
957
958
959
960
961
962
963
964
965
966
967
968
969
970
971
972
973
974
975
976
977
978
979
980
981
982
983
984
985
986
987
988
989
990
991
992
993
994
995
996
997
998
999
1000
1001
1002
1003
1004
1005
1006
1007
1008
1009
1010
1011
1012
1013
1014
1015
1016
1017
1018
1019
1020
1021
1022
1023
1024
1025
1026
1027
1028
1029
1030
1031
1032
1033
1034
1035
1036
1037
1038
1039
1040
1041
1042
1043
1044
1045
1046
1047
1048
1049
1050
1051
1052
1053
1054
1055
1056
1057
1058
1059
1060
1061
1062
1063
1064
1065
1066
1067
1068
1069
1070
1071
1072
1073
1074
1075
1076
1077
1078
1079
1080
1081
1082
1083
1084
1085
1086
1087
1088
1089
1090
1091
1092
1093
1094
1095
1096
1097
1098
1099
1100
1101
1102
1103
1104
1105
1106
1107
1108
1109
1110
1111
1112
1113
1114
1115
1116
1117
1118
1119
1120
1121
1122
1123
1124
1125
1126
1127
1128
1129
1130
1131
1132
1133
1134
1135
1136
1137
1138
1139
1140
1141
1142
1143
1144
1145
1146
1147
1148
1149
1150
1151
1152
1153
1154
1155
1156
1157
1158
1159
1160
1161
1162
1163
1164
1165
1166
1167
1168
1169
1170
1171
1172
1173
1174
1175
1176
1177
1178
1179
1180
1181
1182
1183
1184
1185
1186
1187
1188
1189
1190
1191
1192
1193
1194
1195
1196
1197
1198
1199
1200
1201
1202
1203
1204
1205
1206
1207
1208
1209
1210
1211
1212
1213
1214
1215
1216
1217
1218
1219
1220
1221
1222
1223
1224
1225
1226
1227
1228
مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 5431
وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج الدجال فيمكث أربعين لا أدري أربعين يوما أو شهرا أو عاما فيبعث الله عيسى ابن مريم كأنه عروة بن مسعود فيطلبه فيهلكه ثم يمكث في الناس سبع سنين ليس بين اثنين عداوة ثم يرسل الله ريحا باردة من قبل الشام فلا يبقى على وجه الأرض أحد في قلبه مثقال ذرة من خير أو إيمان إلا قبضته حتى لو أن أحدكم دخل في كبد جبل لدخلته عليه حتى تقبضه قال فيبقى شرار الناس في خفة الطير وأحلام السباع لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فيتمثل لهم الشيطان فيقول ألا تستجيبون ؟ فيقولون فما تأمرنا ؟ فيأمرهم بعبادة الأوثان وهم في ذلك دار رزقهم حسن عيشهم ثم ينفخ في الصور فلا يسمعه أحد إلا أصغى ليتا ورفع ليتا قال وأول من يسمعه رجل يلوط حوض إبله فيصعق ويصعق الناس ثم يرسل الله مطرا كأنه الطل فينبت منه أجساد الناس ثم ينفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون ثم يقال يا أيها الناس هلم إلى ربكم وقفوهم إنهم مسؤولون . فيقال أخرجوا بعث النار . فيقال من كم ؟ كم ؟ فيقال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين قال فذلك يوم يجعل الولدان شيبا وذلك يوم يكشف عن ساق . رواه مسلم .
قیامت سے پہلے کیا ہوگا ؟
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم، اس موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی مراد کیا تھی آیا چالیس دن یا چالیس مہنیے اور یا چالیس سال پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجے گا جو گویا عروہ ابن مسعود کی شکل و صورت کے ہوں گے ( یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) شکل و صورت میں عروہ ابن مسعود کے مشابہ ہوں گے) وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو مار ڈالیں گے، اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا والوں میں سات سال تک رہیں گے اور اس عرصہ میں دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ( جو اہل ایمان کو موت کے آغوش میں پہنچادے گی چناچہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں رائی برار بھی نیکی یا ایمان میں سے کچھ ہوا اور وہ ہوا اس کی روح قبض نہ کرے یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ( بالفرض) پہاڑ کے اندر بھی چلا گیا ہوگا تو وہ ہوا پہاڑ میں داخل ہو کر اس شخص کا پیچھا کریگی اور اس کی روح قبض کر کے چھوڑے گی آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ( روئے زمین پر) صرف بدکار و شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں کے مانند سبک رو اور تیز رفتار اور درندوں کی مانند مضبوط وسخت ہوں گے وہ نہ تو نیکی و بھلائی سے واقف ہوں گے اور نہ برائی و بدکاری سے اجتناب کریں گے پھر شیطان ( کسی معزز وقابل تکریم انسان کی شکل و صورت اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ ( تم لوگ جس طرح فسق وفجور میں مبتلا ہو اس پر) کیا تم کو شرم وحیا نہیں آتی ہے گویا یہ شیطان کا مکرو تلبیس ہوگا کہ وہ اس حیلے سے ان کو بت پرستی کی طرف لائے گا) وہ لوگ شیطان سے کہیں گے تم بتاؤ ہم کیا کریں ( یعنی ہمارے بارے میں جو تمہارا مقصود ہے اس کو ظاہر کرو تاکہ ہم اس کے مطابق عمل کریں) پس شیطان ان کو بت پوجنے کا حکم دے گا یعنی شیطان ان کو اس فریب میں مبتلا کرے گا کہ تم لوگ وسیلہ اختیار کرنے کے طور پر بتوں کو پوجنے لگو تاکہ اللہ تم سے راضی ہو چناچہ کفار یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بتوں کو محض اللہ کو خوش کرنے کے لئے پوجتے ہیں اور قرآن نے ان کی اس خام خیالی کی خبر ان الفاظ میں دی ہے ما نعبد ہم الا لیقربونا الی اللہ زلفا ویقولون ہولاء شفعاؤ نا عند اللہ۔ بہر حال وہ لوگ شیطان کے کہنے کے مطابق بت پرستی کرنے لگیں گے اور ان کے اعمال و اخلاق انتہائی پست ہوجائیں گے لیکن ان کے ان برے اعمال کے باوجود ان کے رزق میں فراوانی اور کثرت ہوگی اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزراتے ہوں گے پھر قیامت قائم کرنے کے لئے) صور پھونکا جائے گا اور جو بھی شخص اس کی آواز سنے گا وہ شخص اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکائے گا اور دوسری جانب سے بلند کرے گا اس صور کی آواز کو سب سے پہلے سننے والا وہ شخص ہوگا جو اپنے اونٹ ( کو پانی پلانے) کے حوض کو لیپ پوت رہا ہوگا اور وہ اسی حالت میں مرجائے گا۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی طرح اپنے اپنے کام میں مشغولیت کے دوران ہی مرجائیں گے ( یعنی کسی کو بھی اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ جس کام میں مشغول ہے اس سے فارغ ہی ہوجائے) اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو شبنم کی طرح ہوگی ( یعنی ہلکی بارش جس کو پھوار بھی کہا جاسکتا ہے اور اس بارش کے ذریعہ لوگوں کے بدن اگ آئیں گے ( جو قبروں میں گل چکے ہوں گے) پھر چالیس برس کے بعد) دوسرا صور پھونکا جائے گا جس کو سن کر تمام لوگ ( جو اپنی قبروں اور زمین کے نیچے سے زندہ ہو کر نکلیں گے) یکبارگی اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھیں گے پھر ان سب سے کہا جائے گا کہ لوگو! اپنے پروردگار کی طرف آو اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ ان سب کو روکے رکھو، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان سے حساب لیا جائے گا پھر ( پروردگار کی طرف سے) فرشتوں کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا جائے گا کہ کتنے لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو الگ کیا جائے؟ یعنی جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجا جانا ہے ان کا تناسب کیا ہے اور ان کو کتنے لوگوں میں سے کس مقدار کے حساب سے الگ کیا جائے فرشتوں سے کہا جائے گا ہر ہزار شخص میں سے نو سو نناوے لوگوں کو دوزخ میں بھیجنے کے لئے الگ کرلو یہ کہہ کر آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا۔ (مسلم ) اور حضرت معاویہ ؓ کی روایت لا تنقطع الہجرۃ۔ توبہ کے باب میں نقل کی چکی ہے۔
تشریح
مجھے نہیں معلوم اسی موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی کیا مراد تھی الخ) کے سلسلہ میں مختصر طور پر اتنا بتادینا کافی ہے کہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، دجال کی ٹھہرنے کی مدت بعض روایتوں میں چالیس سال اور بعض میں چالیس دن یا چالیس رات آئی ہے اور اسی موقع پر یہ بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان روایتوں میں مطابقت کی صورت کیا ہے۔ دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا وہ زمانہ باہمی انس و رواداری، اخوت و محبت اور یگانگت ویک جہتی سے بھر پور ہوگا۔ اس وقت تمام لوگ ایمان و اخلاق کی کامل صفات کے حامل ہوں گے اور پورا معاضرہ اس طرح اعلی انسانی و اخلاقی قدروں پر استوار ہوگا کہ کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوگا۔ کوئی کسی کے درپے آزار نہیں ہوگا۔ کسی کے دل میں کوئی بغض وکینہ اور حسد نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے دوست ورفیق اور ایک دو سے کے ہمدرد اور بہی خواہ ہوں گے! واضح رہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھہرنے کی مدت جو سات سال بیان کی گئی ہے وہ دجال کو قتل کرنے کے بعد اس دنیا میں ان کے ٹھہرنے کی مدت ہے ورنہ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس دنیا میں ان کی کل مدت حیات پینتالیس سال ہوگی۔ جو پرندوں کی مانند سبک رو اور تیز رفتار الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ برائی و بدکاری کے کاموں اور جنسی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح سبک رو اور تیز رفتار ہوں گے جیسے پرندے ہوتے ہیں اور ظلم وتشدد کرنے، فتنہ و فساد پھیلانے اور لوگوں کے جان ومال کو ہلاک و برباد کرنے میں اس طرح شقی القلب اور سخت مزاج ہوں گے جس طرح درندے ہوتے ہیں! پس اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ علم و دانائی حلم ومروت اور دوسرے انسانی و اخلاقی اوصاف سے بالکل خالی ہوں گے بلکہ ان کے دل و دماغ اور مزاج و طبیعت پر ظلم وشقاوت، دست درازی، وحشت ودرندگی اور ہلاکت خیزی کا غلبہ ہوگا۔ وہ اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکالے گا آلخ کا مطلب یہ ہے کہ اس صور کی آواز اتنی زیادہ خوفناک اور ڈراونی ہوگی کہ اس کی دہشت سے لوگوں کے دل پھٹ جائیں گے اور جسمانی قوت وہمت معطل و بیکار ہو کر رہ جائے گی جس کا اثر گردن پر پڑے گا اور وہ ڈھلک جائے گی جیسا کہ خوف و دہشت کے وقت ہوتا ہے کہ سر اس طرح ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے کہ گردن کی ایک جانب تو جھک جاتی ہے اور اس کے مقابل کی دوسری جانب اوپر اٹھ جاتی ہے۔ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الخ سے معلوم ہوا کہ ایک ہزار لوگوے میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ گویا جنت میں جانے والوں کا تناسب فی ہزار ایک شخص ہوگا! نیز زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں سے مراد کافر ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے چناچہ آگے باب الحشر میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت آرہی ہے اس میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ دوزخیوں کی یہ جماعت یاجوج وماجوج کے لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا یہ جملہ دراصل قیامت کے دن کی درازی وطوالت یا اس دن کی شدت وہولنا کی سے کنایہ ہے جیسا کہ مصائب وآلام اور غم وشدائد کے زمانہ میں بوڑھا پا بہت جلد آجاتا ہے۔ اسی طرح یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا بہی سخت ترین خوف وہولنا کی اور شدت و محبت سے کنایہ ہے واضح رہے کہ کشف ساق ( جس کا ترجمہ امر عظیم کو ظاہر کیا جانا) کیا گیا ہے کے معنی اہل عرب میں یہی مشہور ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی بہت سخت مشکل و پریشانی آتی ہے اور اس پریشانی سے نجات پانے کے لئے اس کو بہت زیادہ کوشش اور سعی کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنی پنڈلی کے اوپر سے کرتہ کا دامن وغیرہ اٹھالیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پنڈلی کھل جاتی ہے اس اعتبار سے کشف ساق اہل عرب کا ایک محاورہ بنا ہوا ہے جو کسی کام کی اہمیت ونزاکت اور اس کام کے سلسلے میں پیش آنے والی صعوبتوں اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے! یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہے کہ یوم یکشف عن ساق۔ کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور حدیث میں مذکورہ جملہ کی صورت میں قرآن کے انھی الفاظ کو پیش کیا گیا ہے چناچہ اس کی تفسیر کے سلسلہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن اکثرحضرات کے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تاویل یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی۔
Top