Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (702 - 1228)
Select Hadith
702
703
704
705
706
707
708
709
710
711
712
713
714
715
716
717
718
719
720
721
722
723
724
725
726
727
728
729
730
731
732
733
734
735
736
737
738
739
740
741
742
743
744
745
746
747
748
749
750
751
752
753
754
755
756
757
758
759
760
761
762
763
764
765
766
767
768
769
770
771
772
773
774
775
776
777
778
779
780
781
782
783
784
785
786
787
788
789
790
791
792
793
794
795
796
797
798
799
800
801
802
803
804
805
806
807
808
809
810
811
812
813
814
815
816
817
818
819
820
821
822
823
824
825
826
827
828
829
830
831
832
833
834
835
836
837
838
839
840
841
842
843
844
845
846
847
848
849
850
851
852
853
854
855
856
857
858
859
860
861
862
863
864
865
866
867
868
869
870
871
872
873
874
875
876
877
878
879
880
881
882
883
884
885
886
887
888
889
890
891
892
893
894
895
896
897
898
899
900
901
902
903
904
905
906
907
908
909
910
911
912
913
914
915
916
917
918
919
920
921
922
923
924
925
926
927
928
929
930
931
932
933
934
935
936
937
938
939
940
941
942
943
944
945
946
947
948
949
950
951
952
953
954
955
956
957
958
959
960
961
962
963
964
965
966
967
968
969
970
971
972
973
974
975
976
977
978
979
980
981
982
983
984
985
986
987
988
989
990
991
992
993
994
995
996
997
998
999
1000
1001
1002
1003
1004
1005
1006
1007
1008
1009
1010
1011
1012
1013
1014
1015
1016
1017
1018
1019
1020
1021
1022
1023
1024
1025
1026
1027
1028
1029
1030
1031
1032
1033
1034
1035
1036
1037
1038
1039
1040
1041
1042
1043
1044
1045
1046
1047
1048
1049
1050
1051
1052
1053
1054
1055
1056
1057
1058
1059
1060
1061
1062
1063
1064
1065
1066
1067
1068
1069
1070
1071
1072
1073
1074
1075
1076
1077
1078
1079
1080
1081
1082
1083
1084
1085
1086
1087
1088
1089
1090
1091
1092
1093
1094
1095
1096
1097
1098
1099
1100
1101
1102
1103
1104
1105
1106
1107
1108
1109
1110
1111
1112
1113
1114
1115
1116
1117
1118
1119
1120
1121
1122
1123
1124
1125
1126
1127
1128
1129
1130
1131
1132
1133
1134
1135
1136
1137
1138
1139
1140
1141
1142
1143
1144
1145
1146
1147
1148
1149
1150
1151
1152
1153
1154
1155
1156
1157
1158
1159
1160
1161
1162
1163
1164
1165
1166
1167
1168
1169
1170
1171
1172
1173
1174
1175
1176
1177
1178
1179
1180
1181
1182
1183
1184
1185
1186
1187
1188
1189
1190
1191
1192
1193
1194
1195
1196
1197
1198
1199
1200
1201
1202
1203
1204
1205
1206
1207
1208
1209
1210
1211
1212
1213
1214
1215
1216
1217
1218
1219
1220
1221
1222
1223
1224
1225
1226
1227
1228
مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 5355
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتخذ الفيء دولا والأمانة مغنما والزكاة مغرما وتعلم لغير الدين وأطاع الرجل امرأته وعق أمه وأدنى صديقه وأقصى أباه وظهرت الأصوات في المساجد وساد القبيلة فاسقهم وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافه شره وظهرت القينات والمعازف وشربت الخمور ولعن آخر هذه الأمة أولها فارتقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا وآيات تتابع كنظام قطع سلكه فتتابع . رواه الترمذي .
قیامت کی علامتیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب مالم غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غر ض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے اور جب قوم و جماعت کی سرداری، اس قوم و جماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم و جماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم و جماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور ساز و باجوں کا دور دورہ ہوجائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلہ کا، زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ و تبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے ( مثلا موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں۔ (ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہا ہے، لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طور پر ان کا دور دورہ ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو، اس معاشرہ پر نازل ہونے والا اور دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب تر ہوگیا ہے۔ دول اصل میں دولۃ یا دولۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی انقلاب زمانہ کے ہیں اور ہر اس چیز کو بھی دولت کہتے ہیں جو کبھی کسی کے لئے ہو اور کبھی کسی کے لئے اسی وجہ سے اس لفظ کا مال و زر اور حلیہ و اقتدار پر ہوتا ہے! نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لفظ دولۃ (دال کے پیش کے ساتھ) تو اس چیز کا اسم ہے جو از قسم مال کسی شئ کو حاصل کرے یعنی مال غنیمت اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی دولۃ کے معنی ہیں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹنا یعنی سختی و پریشانی اور تنگدستی کی حالت کا ختم ہوجانا اور اطمینان و راحت اور خوشحالی کا آجانا بہر حال مال غنیمت کو دولت قرار دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کے ذریعہ دشمنوں سے جو مال حاصل ہوتا ہے اور جس کو مال غنیمت کہا جاتا ہے وہ شرعی طور پر تمام غازیوں اور مجاہدوں کا مشترک حق ہے اور اس مال کو ان تمام حقداروں پر، خواہ وہ کسی بھی حیثیت وحالت کے ہوں، تقیسم کرنا واجب ہے، لیکن اگر اسلامی لشکر و سلطنت کے اہل طاقت و ثروت اور اونچے عہدے دار اس مال غنیمت کو شرع حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کے بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کر کے بیٹھ جائیں اور محتاج و ضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال کو غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کو تاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گذرنے لگے کہ گویا ان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہا ہے اور جیسے کوئی شخص تاوان اور جرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اور بوجھ محسوس کرتا ہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھائے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین و شریعت پر عمل اور اخلاق و کردار کی اصلاح و تہذیب انسانیت اور سماج کی فلاح و بہبود اور اللہ و رسول کا قرب و خوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس گے ذریعہ دنیا کی عزت، مال و دولت، جاہ منصب اور ایوان اقتدار میں تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔ مرد کا بیوی کی اطاعت کرنا یہ ہے کہ خاوند، زن مرید ہوجائے اور اس طرح بیوی کا حکم مانے اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے لگے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے حکم و ہدایت کی صریح خلاف ورزی ہو۔ ماں کی نافرمانی کرنے سے مراد یہ ہے کہ ماں کی اطاعت و فرما نبرداری کا جو حق ہے اس سے لاپرواہ ہوجائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھائے واضح رہے کہ یہاں صرف ماں کی تخصیص اس اعتبار سے ہے کہ اولاد کے لئے چونکہ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے اس لئے وہ اولاد پر باپ سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات و حرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے۔ مسجد میں شور و غل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں زور زور سے باتیں کی جائیں، چیخ و پکار کے ذریعہ مسجد کے سکون میں خلل ڈالا جائے اور اس کے ادب و احترام سے لاپرواہی برتی جائے! واضح رہے کہ بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ مسجد میں آواز کو بلند کرنا حرام ہے، خواہ اس کا تعلق ذکر اللہ سے کیوں نہ ہو۔ کسی قوم و جماعت کا سردار اس قوم کے فاسق ہونے۔ سے مراد یہ ہے کہ قیادت وسیادت اگر ایسے لوگوں کے سپرد ہونے لگے جو بد کردار، بدقماش اور بےایمان ہو تو یہ بات پوری قوم کے لئے تباہی کی علامت ہوگی! واضح رہے کہ قوم، جماعت کے حکم میں شہر اور گاؤں اور محلہ بھی شامل ہیں! اسی طرح اگر کسی قوم و جماعت کے زعما ان لوگوں کو قرار دیا جانے لگے جو اپنی قوم و جماعت کے کمینہ، بےکردار اور رذیل ترین ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم و جماعت کی تباہی کے دن آگئے ہیں۔ آدمی کی تعظیم، اس کے فتنہ وشر کے ڈر سے کی جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی تعظیم و احترام کا معیار اس کی ذاتی فضیلت و عظمت پر نہ ہو بلکہ اس کی برائی اور اس کے شر کا خوف ہو۔ یعنی کسی شخص کی اس لئے تعظیم کی جائے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ستانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسے کسی فاسق وبدقماش شخص کو اقتدار و غلبہ حاصل ہوجائے اور لوگ اس کی عزت اور اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوں۔ گانے والیوں سے مراد کنجریاں، ڈومنیاں اور نائنیں وغیرہ ہیں! اور قینات قنۃ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی گانے والی لونڈی کے ہیں، اسی طرح باجوں سے مراد ہر قسم کے ساز و باجے اور گانے بجانے کے آلات ہیں جن کو شرعی اصطلاح میں مزامیر کہا جاتا ہے جیسے ڈھولک، ہا رمونیم، طبلہ، سارنگی اور شہنائی وغیرہ۔ شرابوں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں شراب کی تمام انواع و اقسام اور دیگر دوسری نشہ آور اشیاء بھی مراد ہیں۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ، اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ برائی اسی امت کے ساتھ مخصوص ہے، گذشتہ امتوں کے لوگوں میں اس برائی کا چلن نہیں تھا۔ چناچہ مسلمانوں میں سے رافضی لوگ اس برائی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان گذرے ہوئے اکابر یعنی صحابہ تک کے بارے میں زبان لعن و طعن دراز کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ آیت (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ) 9۔ التوبہ 100) جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے ( ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے خوش ہے!۔ اور ایک آیت میں یہ فرمایا کہ آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48۔ الفتح 18) (اے محمد ﷺ جب مؤمن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا۔ کس قدر بدنصیبی اور شقاوت کی بات ہے کہ جن بندگان خاص سے اللہ تعالیٰ راضی وخوش ہوا ان سے ناراضگی وناخوشی ظاہر کی جائے اور ان کے خلاف ہفوات بکے جائیں۔؟ ان بندگان خاص کے مناقب و فضائل سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں، وہ پاک نفوس ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے دین کو قبول کیا، قبول ایمان میں سبقت حاصل کی، نہایت سخت اور صبر آزما حالت میں اللہ کے نبی ﷺ کی مدد و حمایت کی، اللہ کے دین کا پرچم سر بلند کرنے کے لئے اپنی جانوں کی بازیاں لگائیں، جہاد کے ذریعہ اسلام کی شوکت بڑھائی، بڑے بڑے شہر اور ملک فتح کئے، کسی واسطہ کے بغیر سید الامام (علیہ الصلوۃ والسلام) سے دین کا علم حاصل کیا، شریعت کے احکام و مسائل سیکھے، دین کی بنیاد یعنی قرآن کریم کو سب سے زیادہ جانا اور سمجھا اور مقدس، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ امت کے تمام لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ ان کے حق میں یوں گویا ہوں۔ آیت ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) 59۔ الحشر 10) اے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جنہوں نے قبول ایمان میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے۔ لیکن ان (رافضیوں) کے وہ لوگ کہ جو یا تو ایمان کی روشنی کھو چکے ہیں، یا دیوانے ہوگئے ہیں، ان مقدس ہستیوں اور امت کے سب سے افضل لوگوں کے بارے میں صرف زبان لعن وطعن دراز کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ محض اپنے گندے خیالات ونظریات اور سڑے ہوئے فہم کی وجہ سے یہ کہہ کر ان پاک نفسوں کی طرف کفر کی بھی نسبت کرتے ہیں کہ ابوبکر، عمر اور عثمان ؓ نے بلا استحقاق خلافت پر قبضہ کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کے اصل مستحق علی تھے۔ اللہ ان عقل کے اندھوں کو چشم بصیرت دے، آخر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس امت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں نے اس بات کو غلط اور باطل قرار ہے اور قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت اول حضرت علی کا حق تھا نیز صحابہ کرام میں سے جن لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ خلافت میں ان سے اختلاف کیا، انہوں نے نعوذ باللہ کسی بری غرض کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا اختلاف ان کی اجتہادی رائے کے تحت تھا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خطاء اجتہادی میں مبتلا ہوگئے تھے، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان پر لعن کرنا اور ان کے حق میں گستاخانہ باتیں منہ سے نکالنا نہایت ناروا، بلکہ صریح زیادتی ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت راہ حق سے بھٹک جانے کی وجہ سے کی اور وہ فسق کے مرتکب ہوئے تو بھی ان کو آخر کس بنا پر برا بھلا کہا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی غلط روی سے توبہ کرلی ہو یا اگر توبہ بھی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ غالب امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی رحمت کے صدقہ میں اور ان کی گذشتہ خدمات کے بدلے میں ان کو مغفرت سے نوازدے گا چناچہ ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میرے (بعض) صحابہ (اگر) ذلت یعنی لغزش کا شکار ہوں گے ( تو) اللہ تعالیٰ ان کو میری صحبت اور میرے ساتھ تعلق رکھنے کی برکت سے بخش دے گا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اکثر وبیشتر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے پروردگار کی رحمت اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت کے امیدوار رہتے ہیں تو کیا وہ لوگ جو اس امت کے سب سے افضل اور سب سے بڑے لوگوں کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کے حق میں یہ نیک گمان رکھا جائے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی بھی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کی عظمت اور ان کے شرف صحابیت کی برکت سے ان سے درگذر فرمائے گا؟ مرتبہ صحابیت کے تقدس وشرف کو داغدار کرنے والے نادانو! سوچو کہ تم اپنی زبان کو کن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے گندا کررہے ہو اور تمہارا یہ طرز عمل رحمۃ للعٰلمین ﷺ کو کس قدر تکلیف پہنچارہا ہوگا!؟ کیا تم اس بات سے بیخبر ہو کہ نیک بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے عیوب ان کو دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھیں؟ کیا تم اس فرمان رسالت ﷺ کی صداقت کے منکر ہو کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو برائی کے ساتھ یاد نہ کرو۔ کیا رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے کہ جب تمہارے سامنے میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو؟ اگر تم ذرا بھی ایمان وعقل کا دعوی رکھتے ہو تو سنو کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ابوبکر و عمر کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان دونوں سے بغض و عداوت رکھنا کفر کی علامت ہے) انصار کی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت، کفر ہے، اہل عرب کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت کفر ہے جس نے میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد کیا وہ اللہ کی لعنت کا مستوجب ہوا اور جس نے ان کے بارے میں میرے حکم کی پاسداری کی، میں قیامت کے دن اس کی پاسداری کروں گا۔ اے اللہ بس تو ہی ان لوگوں کو عقل سلیم اور چشم بصیرت عطا کر کے راہ ہدایت دکھا سکتا ہے، جو جہالت و نادانی اور تعصب کی وجہ سے تیرے محبوب نبی ﷺ کے محبوب صحابہ اور ساتھیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کرکے خود کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بناتے ہیں۔
Top