اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ مہینہ (کے اکثر ایام) میں (نفل) روزہ نہ رکھتے، یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ آپ ﷺ اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ ﷺ مہینہ ( اسی مہینے یا دوسرے مہینے کے اکثر ایام) میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ اب (اس مہینے کا) کوئی دن بھی آپ ﷺ بغیر روزے کے نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو نماز پڑھتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے ہو تو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیتے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو سوتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے ہی دیکھ لیتے۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعمال نفل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے تھے چناچہ نہ تو آپ ﷺ ہمیشہ روزہ ہی رکھتے تھے کہ افراط یعنی زیادتی لازم آتی اور نہ ہمیشہ بغیر روزے کے ساتھ رہتے تھے کہ تفریط یعنی کمی لازم آتی، بلکہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ ہر مہینے میں کچھ دن تو آپ ﷺ روزے سے رہا کرتے تھے اور کچھ دن بغیر روزے کے۔ اسی طرح نفل نماز کے سلسلے میں بھی آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ رات کو آپ ﷺ سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے نہ تو تمام رات سوتے ہی تھے اور نہ تمام رات نماز ہی میں گزارتے تھے۔ غرضیکہ تمام امور میں آپ ﷺ کا عمل اوسط درجے کا تھا، نہ زیادہ تھا اور نہ کم تھا۔