Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4407 - 4503)
Select Hadith
4407
4408
4409
4410
4411
4412
4413
4414
4415
4416
4417
4418
4419
4420
4421
4422
4423
4424
4425
4426
4427
4428
4429
4430
4431
4432
4433
4434
4435
4436
4437
4438
4439
4440
4441
4442
4443
4444
4445
4446
4447
4448
4449
4450
4451
4452
4453
4454
4455
4456
4457
4458
4459
4460
4461
4462
4463
4464
4465
4466
4467
4468
4469
4470
4471
4472
4473
4474
4475
4476
4477
4478
4479
4480
4481
4482
4483
4484
4485
4486
4487
4488
4489
4490
4491
4492
4493
4494
4495
4496
4497
4498
4499
4500
4501
4502
4503
صحيح البخاری - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 2764
وعن سعد بن أبي وقاص قال : رد رسول الله صلى الله عليه و سلم على عثمان ابن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا
تبتل کی ممانعت
اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کو تبتل (یعنی نکاح ترک کرنے) سے منع کردیا تھا اگر آنحضرت ﷺ ان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی خصی ہوجاتے ( بخاری ومسلم)
تشریح
تبتل کے معنی ہیں عورتوں سے انقطاع اور ترک نکاح، نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین) کے ہاں تبتل ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے کیونکہ ان کے نزدیک دینداری کی آخری حد یہ ہے کہ انسان عورتوں سے اجتناب کرے اور نکاح وغیرہ سے پرہیز کرے۔ لیکن جس طرح عیسائیت یا بعض دوسرے مذاہب میں نکاح کو ترک کردینا اور لذائذ زندگی سے کنارہ کش ہوجانا عبادت اور نیکی وتقوی کی آخری حد سمجھا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ نے نکاح کو انسانی زندگی کے لئے ایک ضرورت قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ لذائذ زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور خود ساختہ تکالیف برداشت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ رہبانیت ہے جسے اس دین فطرت میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ ہاں امام شافعی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ بغیر نکاح زندگی گزارنا افضل ہے لیکن امام شافعی کا یہ قول بھی نکاح کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی منشاء کے منافی نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا تعلق صرف فضیلت سے ہے اور دوسرے یہ کہ یہ فضیلت بھی نفس نکاح یعنی کرنے یا نہ کرنے) کے بارے میں نہیں ہے بلکہ صرف تخلی للعبادۃ (یعنی عبادت کے لئے مجرد رہنا) کے نکتہ نظر سے ہے گویا امام شافعی کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عبادات میں مشغول رہنا نکاح کی مشغولیت سے افضل ہے۔ چناچہ ملا علی قاری نے مرقات میں امام شافعی کی دلیلیں نقل کرنے کے بعد امام اعظم ابوحنیفہ کی بہت سی دلیلیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تجرد بغیر نکاح رہنے کے مقابلہ میں تاہل نکاح کرنا ہی افضل ہے۔ بہرکیف حضرت عثمان بن مظعون نے جب آنحضرت ﷺ سے تبتل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ اسلام مسلمانوں کے ہاں نکاح کے ذریعہ افزائش نسل کو پسند کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے حقیقی نام لیوا موجود رہیں اور وہ ہمیشہ کفر و باطل کے خلاف جہاد کرتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حدیث کے راوی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے یہ کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے تاکہ ہمیں عورتوں کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہمیں عورتوں سے متعلق کسی برائی میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع کے مناسب تو یہ تھا کہ حضرت سعد یہ کہتے کہ آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم بھی تبتل کرتے۔ مگر حضرت سعد نے یہ کہنے کی بجائے یہ کہا کہ ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے لہذا حضرت سعد نے یہ بات دراصل بطور مبالغہ کہی یعنی اپنی اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو اجازت دے دیتے تو ہم بھی تبتل میں اتنا مبالغہ اور اتنی سخت کوشش کرتے کہ آخر کار خصی کی مانند ہوجاتے۔ گویا اس جملہ سے حضرت سعد کی مراد حقیقۃً خصی ہوجانا نہیں تھا کیونکہ یہ فعل یعنی اپنے آپ کو خصی کر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ بات اس وجہ سے کی کہ ان کا گمان یہ تھا کہ خصی ہوجانا جائز ہے حالانکہ انکا یہ گمان حقیقت و واقعہ کے خلاف تھا کیونکہ خصی ہوجانا انسان کے لئے حرام ہے خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا اس موقع پر جانوروں کے بارے میں جان لینا چاہئے کہ ہر اس جانور کو خصی کرنا حرام جو غیر ماکول یعنی کھایا نہ جاتا ہو اور جو جانور کھایا جاتا ہے اس کو خصی کرنا چھوٹی عمر میں تو جائز ہے لیکن بڑی عمر میں حرام ہے۔ جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصل علامہ نووی شافعی نے لکھی ہے جب کہ فقہ حنفی کی کتابوں اور مختار اور ہدایہ میں بڑی عمر اور چھوٹی عمر کی تفصیل کے بغیرصرف یہ لکھا ہے کہ جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے۔
Top