Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4202 - 4406)
Select Hadith
4202
4203
4204
4205
4206
4207
4208
4209
4210
4211
4212
4213
4214
4215
4216
4217
4218
4219
4220
4221
4222
4223
4224
4225
4226
4227
4228
4229
4230
4231
4232
4233
4234
4235
4236
4237
4238
4239
4240
4241
4242
4243
4244
4245
4246
4247
4248
4249
4250
4251
4252
4253
4254
4255
4256
4257
4258
4259
4260
4261
4262
4263
4264
4265
4266
4267
4268
4269
4270
4271
4272
4273
4274
4275
4276
4277
4278
4279
4280
4281
4282
4283
4284
4285
4286
4287
4288
4289
4290
4291
4292
4293
4294
4295
4296
4297
4298
4299
4300
4301
4302
4303
4304
4305
4306
4307
4308
4309
4310
4311
4312
4313
4314
4315
4316
4317
4318
4319
4320
4321
4322
4323
4324
4325
4326
4327
4328
4329
4330
4331
4332
4333
4334
4335
4336
4337
4338
4339
4340
4341
4342
4343
4344
4345
4346
4347
4348
4349
4350
4351
4352
4353
4354
4355
4356
4357
4358
4359
4360
4361
4362
4363
4364
4365
4366
4367
4368
4369
4370
4371
4372
4373
4374
4375
4376
4377
4378
4379
4380
4381
4382
4383
4384
4385
4386
4387
4388
4389
4390
4391
4392
4393
4394
4395
4396
4397
4398
4399
4400
4401
4402
4403
4404
4405
4406
مشکوٰۃ المصابیح - آداب سفر کا بیان - حدیث نمبر 5389
وعن فاطمة بنت قيس قالت سمعت منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى صلاته جلس على المنبر وهو يضحك فقال ليلزم كل إنسان مصلاه . ثم قال هل تدرون لم جمعتكم ؟ . قالوا الله ورسوله أعلم . قال إني والله ما جمعتكم لرغبة ولا لرهبة ولكن جمعتكم لأن تميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم به عن المسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر فأرفؤوا إلى جزيرة حين تغرب الشمس فجلسوا في أقرب سفينة فدخلوا الجزيرة فلقيتهم دابة أهلب كثير الشعر لا يدرون ما قبله من دبره من كثرة الشعر قالوا ويلك ما أنت ؟ قالت أنا الجساسة قالوا وما الجساسة ؟ قالت أيها القوم انطلقوا إلى هذا الرجل في الدير فإنه إلى خبركم بالأشواق قال لما سمت لنا رجلا فرقنا منها أن تكون شيطانة قال فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه أعظم إنسان ما رأيناه قط خلقا وأشده وثاقا مجموعة يده إلى عنقه ما بين ركبتيه إلى كعبيه بالحديد . قلنا ويلك ما أنت ؟ قال قد قدرتم على خبري فأخبروني ما أنتم ؟ قالوا نحن أناس من العرب ركبنا في سفينة بحرية فلعب بنا البحر شهرا فدخلنا الجزيرة فلقيتنا دابة أهلب فقالت أنا الجساسة اعمدوا إلى هذا في الدير فأقبلنا إليك سراعا وفزعنا منها ولم نأمن أن تكون شيطانة فقال أخبروني عن نخل بيسان قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال أسألكم عن نخلها هل تثمر ؟ قلنا نعم . قال أما إنها توشك أن لا تثمر . قال أخبروني عن بحيرة الطبرية قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل فيها ماء ؟ قلنا هي كثيرة الماء . قال أما إن ماءها يوشك أن يذهب . قال أخبروني عن عين زغر . قالوا وعن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل في العين ماء ؟ وهل يزرع أهلها بماء العين ؟ قلنا له نعم هي كثيرة الماء وأهله يزرعون من مائها . قال أخبروني عن نبي الأميين ما فعل ؟ قلنا قد خرج من مكة ونزل يثرب . قال أقاتله العرب ؟ قلنا نعم . قال كيف صنع بهم ؟ فأخبرناه أنه قد ظهر على من يليه من العرب وأطاعوه . قال لهم قد كان ذلك ؟ قلنا نعم . قال أما إن ذلك خير لهم أن يطيعوه وإني مخبركم عني إني أنا المسيح الدجال وإني يوشك أن يؤذن لي في الخروج فأخرج فأسير في الأرض فلا أدع قرية إلا هبطتها في أربعين ليلة غير مكة وطيبة هما محرمتان علي كلتاهما كلما أردت أن أدخل واحدة أو واحدا منهما استقبلني ملك بيده السيف صلتا يصدني عنها وإن على كل نقب منها ملائكة يحرسونها . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعن بمخصرته في المنبر هذه طيبة هذه طيبة هذه طيبة يعني المدينة ألا هل كنت حدثتكم ؟ فقال الناس نعم فإنه أعجبني حديث تميم أنه وافق الذي كنت أحدثكم عنه وعن المدينة ومكة . ألا إنه في بحر الشأم أو بحر اليمن لا بل من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو وأومأ بيده إلى المشرق . رواه مسلم . ( متفق عليه )
دجال کا ذکر
اور حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ ( ایک دن) میں نے رسول کریم ﷺ کے مؤذن کی یہ آواز الصلوۃ جامعۃ نماز جمع کرنے والی ہے) سن کر مسجد پہنچی اور پھر میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے اس وقت ( حسب عادت آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم میں نے تمہیں نہ تو کسی مرغوب چیز کے لئے جمع کیا ہے اور نہ کسی دہشت ناک کے لئے یعنی تمہیں یہاں روکنے کا مقصد نہ تو تمہیں کوئی چیز دینا ہے اور نہ کسی دشمن وغیرہ سے ڈرانا ہے بلکہ میں نے تمہیں اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری، جو ایک نصرانی (عیسائی) شخص تھا، آیا اور مسلمان ہوا اور اس نے مجھ کو ایک ایسا واقعہ سنایا جو مسیح دجال کے بارے میں ان باتوں کے مطابق ہے جو میں تمہیں بتایا کرتا ہوں چناچہ میں نے مناسب جانا کہ تمیم داری کا وہ واقعہ تمہیں بھی سنا دوں تاکہ دجال کے بارے میں تمہارا یقین اور زیادہ پختہ ہوجائے اور میری بتائی ہوئی باتیں مشاہدہ کے قرین ہوجائیں تو سنو مجھ سے تمیم داری نے بیان کیا کہ وہ ایک ( دن) قبیلہ جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہو کر روانہ ہوا تو پانی کی موج ایک مہینہ تک کشتی کے سواروں سے کھیلتی رہی ( یعنی کشتی سمندر کی ایک ایسی موج میں گھر گئی جو مسلسل ایک مہینہ تک اس کو ادھر ادھر لئے پھری اور اس نے سواروں کو منزل مقصود تک نہ پہنچنے دیا) یہاں تک کہ اس موج نے کشتی کو ( ایک دن) غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرہ کے قریب پہنچایا دیا اور سارے سوار ان چھوٹی کشتیوں میں کہ جو بڑی کشتی کے ساتھ تھیں بیٹھ کر اس جزیرہ میں پہنچ گئے، وہاں انہیں ایک ایسا چوپایہ ملا جو بالوں والا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا پیچھا معلوم نہیں ہوتا تھا یعنی اس چوپایہ کے جسم پر اتنے زیادہ بال تھے کہ پورا جسم چھپ کر رہ گیا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا اگلا حصہ کونسا ہے اور پچھلا کونسا) لوگوں نے ( اس کو دیکھ کر بڑی حیرت سے) کہا کہ تجھ پر افسوس، تو کون ہے اور کیا ہے؟ یعنی آخر تیری اصل و ماہیت کیا ہے تو کوئی جن ہے یا انسان ہے؟ ) اس چوپابہ نے جواب دیا کہ میں جاسوس اور خبر رساں ہوں تم لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلو جو دیر میں ہے کیونکہ اسے تمہاری خبریں سننے کا بہت شوق ہے تمیم داری نے بیان کیا کہ جب اس چوپایہ نے ہم سے ایک شخص کا ذکر کیا ( اور ہمیں اس کے پاس چلنے کو کہا) تو ہمیں بڑا ڈر لگا کر وہ شخص کہیں انسان کی شکل و صورت میں شیطان نہ ہو، بہر حال ہم تیزی کے ساتھ چل پڑے اور جب دیر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک سب سے بڑی ڈیل ڈول والا اور نہایت خوفناک آدمی موجود ہے، اسی جیسی شکل و صورت کا آدمی ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، وہ نہایت مضبوط اس طرح بندھا ہوا تھا کہ اس کے ہاتھ گردن تک اور گھٹنوں کے درمیان سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیر سے جکڑے ہوئے تھے ہم نے (اس کو دیکھ کر بڑی حیرت کے ساتھ) کہا کہ تجھ پر افسوس ہے، تو کون ہے اور کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ جب تم نے مجھ کو پالیا اور معلوم کر ہی لیا ہے ( اور یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہو تو اب میں تم سے اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا اور سب کچھ بتادوں گا لیکن پہلے) مجھے اپنے بارے میں بتاؤ ( اور جو کچھ تم سے پوچھوں اس کا جواب دو ) کہ تم کون ہو ( اور کہاں سے آئے ہو؟ ) ہمارے لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم عرب کے لوگ ہیں بحری کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ ( اور اپنی منزل مقصود کی طرف جارہے تھے) کہ سمندری طوفان نے ہمیں ایک مہینہ تک گھیرے رکھا ( اور ہماری کشتی کو یہاں لا چھوڑا ہم اس جزیرہ پر اتر گئے، یہاں ہمیں ایک بالوں والا چوپایہ ملا اور اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں تم لوگ اس شخص کے پاس جاؤ جو دیر یعنی بڑے محل میں موجود ہے چناچہ ہم بڑی تیزی کے ساتھ تیرے پاس چلے آئے اس نے کہا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان میں کھجوروں کے دو درخت ہیں ان پر پھل آتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں پھل آتے ہیں! اس نے کہا کہ جان لو جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہے جب بیسان کے کھجور کے درختوں پر پھل نہیں آئیں گے (گویا اس نے اس طرف اشارہ کیا کہ قیامت جلد ہی آنے والی ہے) اس نے کہا کہ اب مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ کہ آیا اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا یقینا عنقریب اس کا پانی ختم ہوجائے گا پھر اس نے پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رغر کے چشمہ میں پانی ہے یا نہیں اور وہاں کے لوگ اس چشمہ کے پانی کے ذر یعہ کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں اس چشمہ میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اسی پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اس کے بعد اس نے کہا کہ اب مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی ﷺ کے بارے میں بتاؤ اس نے کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ انہوں نے مکہ کو چھوڑ دیا ہے اور اب یثرب ( یعنی مدینہ) کو ہجرت کر گئے ہیں اس نے پوچھا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں! پھر اس نے پوچھا کہ انہوں نے اہل عرب سے کیا معاملہ کیا؟ ہم نے اس کو بتایا کہ وہ نبی ﷺ ان عربوں پر غالب آگئے ہیں جو ان کے قریب ہیں اور انہوں نے ان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں، میں درحقیت مسیح یعنی دجال ہوں، وہ زمانہ جلدہی آنے والا ہے جب مجھ کو نکلنے کی اجازت مل جائے گی، اس وقت میں نکلوں گا اور چالیس دنوں تک زمین پر پھروں گا یہاں تک کوئی آبادی ایسی نہیں چھوڑوں گا جس میں داخل نہیں ہوں گا، سوائے مکہ اور طیبہ یعنی مدینہ اور مکہ کے یہ دونوں شہر مجھ پر حرام قرار دیئے گئے ہیں یعنی ان دونوں میں داخل ہونا چاہوں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آجائے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی وہ فرشتہ مجھ کو اس شہر میں داخل ہونے سے روک دے گا، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شہر کے تمام راستوں پر فرشتے مامور ہیں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (تمیم داری کا یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد صحابہ پر اپنی یہ خوشی ظاہر کرنے کے لئے کہ دیکھو دجال کے بارے میں تمہیں جو کچھ بتایا کرتا تھا اس کی پوری پوری تصدیق و تائید اس واقعہ سے ہوجاتی ہے، نیز آپ ﷺ نے تمام شہروں پر مدینہ کی فضیلت و بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے جوش میں) اپنا عصاء مبارک منبر پر مار کر ( تین مرتبہ) یہ فرمایا کہ یہ ہے طیبہ، یہ ہے طبیہ یعنی مدینہ ( پھر فرمایا) یاد رکھو، کیا میں تمہیں یہی بات نہیں بتایا کرتا تھا (جو دجال کے بارے میں اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے؟ ) صحابہ نے کہا کہ ہاں ( آپ ﷺ ہمیں اسی طرح کی بات بتایا کرتے تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن کے سمندر میں، نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا، یہ فرما کر آپ ﷺ نے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا۔ (مسلم )
تشریح
الصلوۃ جامعۃ کا جملہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور نماز کے لئے بلانے کے واسطے ہے تاکہ لوگ یہ سن کر ایک جگہ پہنچ جائیں اور جمع ہوجائیں جیسا کہ زمانہ نبوی ﷺ میں کسوف اور خسوف کی نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اس جملہ کے ذریعہ پکارا جاتا تھا! سفینۃ کو بحریۃ کی اضافت کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد اس بات سے احتراز کرنا ہے کہ ذہن خشکی کی کشتی یعنی اونٹ کی طرف منتقل نہ ہو کیونکہ اونٹ کو سفینۃ البر ( خشکی کی کشتی) کہا جاتا ہے، ویسے بعض حضرات نے کہا ہے سفینہ بریہ سے مراد بڑی سمندری کشتی ہے جس کو پانی کا جہاز بھی کہا جاسکتا ہے۔ لفظ اقرب اصل میں قا رب کی جمع ہے اور قا رب اس ڈونگی یعنی چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں جو بڑی سمندری کشتی ( پانی کے جہاز) میں رکھی رہتی ہے اور ساحل پر آنے جانے اور ان کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو بڑی کشتی یا جہاز کے ذریعہ انجام نہیں پاسکتے۔ اس عجیب الخلقت جانورنے اپنا نام جساستہ یعنی جاسوسی کرنے والا اس اعتبار سے بتایا کہ وہ دجال کو خبریں اور معلومات پہنچایا کرتا تھا، واضح رہے کہ قرآن شریف میں جس دابۃ الارض کا ذکر آیا ہے وہ یہی جانور ہے۔ دیر اصل میں عیسائیوں کی عبادت گاہ یعنی گرجا کو کہتے ہیں ویسے لغت کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ دیر راہبوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں، بہر حال یہاں حدیث میں دیر سے مراد وہ بڑی عمارت ہے جس میں دجال تھا۔ بیسان ملک شام میں ایک بستی کا نام ہے یا یمامہ میں ایک جگہ کا نام ہے، لیکن مشرق الانور میں لکھا ہے کہ حدیث جسار میں ( جو یہاں نقل ہوئی ہے) مذکور بیسان حجاز کے ایک شہر کا نام ہے اور دوسرا بیسان شام کے علاقہ میں واقع ہے۔ جیسا کہ پیچھے بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے بحیرہ اصل میں بحر کی تصغیر ہے یعنی چھوٹا سمندر، جس کو جھیل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اور طبریہ اردن کے ایک قصبہ کا نام سے، فن حدیث کے مشہور امام طبرانی اس قصبہ کے رہنے والے تھے۔ زغر ایک شہر کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے، اس علاقہ میں رویئدگی بہت کم ہوتی ہے۔ مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی کے بارے میں بتاؤ میں دجال نے حضور ﷺ کی نسبت صرف اہل عرب کی طرف ازراہ طنز کہ وہ خاص طور پر اہل عرب کے نبی ہیں یا یہ کہ جملہ تعزیمی پیرا یہ بیان ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ اس ملعون دجال کی اس باطل خیال کی ترجمانی مقصود تھی کہ آپ ﷺ نادانوں اور جاہلوں کے نبی ہیں۔ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے دجال کی زبان سے اس بات کا نکلنا گویا اس کی طرف سے حضور ﷺ کی عظمت و فضیلت کا اقرار تھا۔ گویہ اقرار اضطرار بہی تھا اور اس کے سبب سے بھی تھا کہ اس وقت کفر کے اظہار اور دین سے انکار کی کوئی غرض بھی اس کے سامنے نہیں تھی، لہٰذا اس نے اپنے کفر وعناد کو پوشیدہ رکھنا ہی مناسب سمجھا، یا یہ بہی کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ میں بہتری سے اس کی مراد دنیاوی بھلائی و بہتر اور امن و سلامتی ہو۔ لا بل من قبل المشرق ماہو ( نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا) میں حرف ما، نفی کے لئے نہیں ہے بلکہ زائد ہے! اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت آنے کا وقت چونکہ اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ قیامت کی علامتوں اور نشانیوں کے ظاہر ہونے کے زمانوں اور اوقات کو بھی متعین نہیں فرمایا اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی متعین طور پر وہ جگہ نہیں بتائی جہاں دجال مقید ہے، صرف ترد و ابہام کے طور پر مذکورہ تین مقامات کی طرف اشارہ فرمایا البتہ آخری مقام کو ظن غالب کے ذریعہ ظاہر فرمایا لیکن اس کو بھی متعین نہیں کیا سوائے اس کے کہ کسی خاص جگہ و علاقہ کے تعین کے بغیر اس سمت کی طرف اشارہ فرما کر چھوڑ دیا۔ پس مذکورہ جملہ سے پہلے دو احتمال کی نفی اور تیسرے احتمال کا جو اثبات ہوتا ہے اس کے یہی معنی ہیں! ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلی دو جگہوں کا ذکر فرما کر پہر ان کی جو نفی فرمائی تو اس کا سبب یہ تھا کہ دجال کا قید خانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہوگا! اور تورپشتی نے بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا کی وضاحت میں کہا ہے کہ احتمال ہے کہ یہ جملہ خبر دینے کے طور پر ہو، یعنی دجال مشرق کی جانب سے نکلے گا نیز اشرف نے کہا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ دجال کے قید خانے کی جگہ کی تعین میں شک رکھتے تھے، آپ ﷺ کے گمان میں تھا کہ وہ ان جگہوں میں سے کسی نہ کسی جگہ مقید ہے، چناچہ جب آپ ﷺ نے اپنے اس شک کی بنا پر جب شام کے سمندر اور یمن کے سمندر کا ذکر کیا تو اسی وقت وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو یقین کے ساتھ معلوم ہوگیا یا آپ ﷺ کو ظن غالب ہوا کہ اس کا قید خانہ مشرق میں کسی جگہ واقع ہے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے پہلی دونوں جگہوں کی نفی فرما دی اور ان سے اعراض کرکے تیسری جگہ یعنی مشرق کا اثبات فرمایا۔
Top