آیۃ الکرسی کو سب سے عظی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں تو حید، تعظیم الٰہی، اسماء حسنی اور صفات باری تعالیٰ جیسے عظیم وعالی شان مضامین کا بیان ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے رمضان کی زکوٰۃ (یعنی صدقہ عید الفطر) کی نگہبانی اور جمع کرنے پر مجھے مامور فرمایا تاکہ جمع ہونے کے بعد آپ اسے فقراء میں تقسیم فرما دیں چناچہ اس دوران میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دامن اور اپنے برتن میں غلہ بھرنا شروع کردیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول کریم ﷺ کے پاس لے چلوں گا اور تجھے اس غلط حرکت کی سزا دلواؤں گا اس نے کہا کہ میں ایک محتاج ہوں میرے اوپر میرے اہل و عیال کا نفقہ ہے اور میں سخت حاجتمند ہوں یعنی میرے ذمہ قرض وغیرہ بھی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی یہ خستہ حالت سن کر اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ مجھ سے فرمانے لگے کہ ابوہریرہ ؓ تمہارے گزشتہ رات کے قیدی کا کیا ہوا؟ (اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر دے دی تھی) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے اپنی سخت حاجت اور عیال داری کا رونا رونے لگا اس لئے مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا خبردار رہنا! اس نے اپنے حالات کے اظہار میں تم سے جھوٹ بولا ہے وہ پھر آئے گا اس لئے آئندہ احتیاط رکھنا میں سمجھ گیا کہ ضرور آئے گا چناچہ میں اس کا منتظر رہا وہ آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے غلہ بھرنا شروع کردیا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب تو میں تجھے رسول کریم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیجئے میں ضرورت مند ہوں میرے اوپر کنبہ کا نفقہ ہے اب آئندہ میں نہیں آؤں گا مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور اس مرتبہ میں نے یہ سلوک اس لئے کیا کہ اس نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا تھا ورنہ تو اپنی حاجت و ضرورت کے بارے میں اس کا جھوٹ مخبر صادق یعنی آنحضرت ﷺ کی زبانی معلوم ہو ہی چکا تھا۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے مجھ سے پھر فرمایا کہ ابوہریرہ ؓ تمہارے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ میرے سامنے اپنی شدید ضرورت و حاجت اور عیالداری کا دکھڑا رونے لگا، اس لئے مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے اس کے اس وعدہ پر کہ آئندہ پھر کبھی نہیں آؤں گا اس کو چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہوشیار رہنا! اس نے اس مرتبہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ میں آئندہ نہیں آؤں گا وہ پھر آئے گا چناچہ میں اس کا منتظر رہا اور وہ پھر آیا جب اس نے غلہ بھرنا شروع کیا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں آج تو تجھے ضرور ہی رسول کریم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا یہ آخری تیسرا موقع ہے تو نے تو کہا تھا آئندہ نہیں آؤں گا اسی لئے میں نے تجھے اس مرتبہ چھوڑ دیا تھا مگر تو پھر آگیا۔ اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے نفع پہنچائے گا (اور وہ یہ کہ) جب تم (سونے کے لئے) اپنے بستر پر جاؤ تو آیت الکرسی کی آخری آیت (یعنی وہوم العلی العظیم) 2۔ البقرۃ 255) پڑھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک نگہبان فرشتہ رہا کرے گا اور صبح تک تمہارے پاس کوئی شیطان خواہ وہ انسان میں سے ہو یا جنات میں سے دنیوی تکلیف و اذیت پہنچانے کے لئے نہیں آئے گا، میں نے یہ سن کر اسے اس مرتبہ بھی چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے مجھ سے پھر فرمایا کہ تمہارے قیدی کا کیا ہوا، میں نے عرض کیا کہ قیدی نے (جب) مجھ سے یہ کہا کہ وہ مجھے کچھ کلمات سکھائے گا جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے گا (تو میں نے اس مرتبہ بھی اس کو چھوڑ دیا) آپ ﷺ نے فرمایا آگاہ رہو (اگرچہ) اس نے تم سے (ان کلمان کے بارہ میں) سچ کہا ہے (مگر) وہ (دوسری باتوں میں) جھوٹا ہے اور تم جانتے ہو کہ تم ان تین راتوں میں کس سے مخاطب تھے؟ میں نے کہا کہ نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا وہ شیطان تھا (جو اس طرح مکر و فریب سے صدقات کے مال میں کمی کرنے آیا تھا)۔ (بخاری)