Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4407 - 4503)
Select Hadith
4407
4408
4409
4410
4411
4412
4413
4414
4415
4416
4417
4418
4419
4420
4421
4422
4423
4424
4425
4426
4427
4428
4429
4430
4431
4432
4433
4434
4435
4436
4437
4438
4439
4440
4441
4442
4443
4444
4445
4446
4447
4448
4449
4450
4451
4452
4453
4454
4455
4456
4457
4458
4459
4460
4461
4462
4463
4464
4465
4466
4467
4468
4469
4470
4471
4472
4473
4474
4475
4476
4477
4478
4479
4480
4481
4482
4483
4484
4485
4486
4487
4488
4489
4490
4491
4492
4493
4494
4495
4496
4497
4498
4499
4500
4501
4502
4503
مشکوٰۃ المصابیح - طب کا بیان - حدیث نمبر 5336
وعن أبي بكرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ينزل أناس من أمتي بغائط يسمونه البصرة عند نهر يقال له دجلة يكون عليه جسر يكثر أهلها ويكون من أمصار المسلمين وإذا كان في آخر الزمان جاء بنو قنطوراء عراض الوجوه صغار الأعين حتى ينزلوا على شط النهر فيتفرق أهلها ثلاث فرق فرقة يأخذون في أذناب البقر والبرية وهلكوا وفرقة يأخذون لأنفسهم وهلكوا وفرقة يجعلون ذراريهم خلف ظهورهم ويقاتلونهم وهم الشهداء . رواه أبو داود
بصرہ کے متعلق پیشنگوئی
حضرت ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کے لوگ ایک پست زمین پر پہنچ کر قیامت پذیر ہوں گے اور اس جگہ کا نام بصرہ رکھیں گے، وہ جگہ ایک نہر کے قریب ہوگی جس کو دجلہ کہا جاتا ہوگا، اس نہر پر پل ہوگا، بصرہ میں رہنے والوں کی آباادی بہت بڑھ جائے گی اور اس کا شمار مسلمانوں کے بڑے شہروں میں ہوگا اور پھر جب زمانہ آخر ہوگا تو قنطورا کی اولاد اس شہر کے لوگوں سے لڑنے کے لئے آئے گی، ان کے منہ چوڑے چکلے اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی، وہ لوگ نہر کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور ان کو دیکھ کر شہر کے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک حصہ توبیلوں کی دموں اور جنگل میں پناہ حاصل کرے گا یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے سے کترا کر اپنی کھیتی باڑی کے کاموں مشغول ہوجائیں گے اور بیل وغیرہ ڈھونڈھے کا بہانہ لے کر ادھر ادھر ہوجائیں گے تاکہ دشمن کے حملے سے اپنی جان بچا سکیں یا یہ کہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال اور مال و اسباب کو جمع کر کے جنگلوں میں چلے جائیں گے تاکہ حملہ آور اور دشمن کی نقصان رسانی سے محفوظ رہیں حالانکہ وہ لوگ موت و تباہی کے گھاٹ اتر کر رہیں گے یعنی وہ اپنی اس حیلہ سازی کے باوجود دشمن کی زد سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ حملہ آور مشرک دشمنی اور فتنہ و فساد کی جو آگ بھڑکائیں گے وہ اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹھنڈی یا محدود نہیں ہوگی اور دوسرا حصہ قنطورا کی اولاد سے اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا مگر ان لوگوں کو بھی موت اور تباہی کے گھاٹ اترنا پڑے گا اور تیسرا حصہ وہ ہوگا جو اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو پیچھے چھوڑ کر یعنی اپنے اہل و عیال سے بےپروا ہو کر اور ان کی محبت سے اپنا دامن چھڑا کر حملہ آور کے مقابلے پر ڈٹ جائے گا یا یہ کہ وہ لوگ اپنے بال بچوں کو اپنے پیچھے لے کر محاذ پر جائیں گے اور وہاں دشمنوں سے لڑیں گے اور ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبہ کو پہنچیں گے۔ (ابو داؤد)
تشریح
بصرہ با کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اور صاد کے جزم کے ساتھ ہے، نیز یہ لفظ صاد کے زبر اور زیر کے ساتھ بھی منقول ہے۔ دجلہ دال کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اس علاقہ کا مشہور دریا ہے جس کے کنارے پر شہر بغداد واقع ہے۔ حلبی نے حاشیہ شفا میں لکھا ہے کہ بصرہ کی با، زبر، زیر اور پیش تینوں حرکتوں کے ساتھ منقول ہے نیز یہ وہ شہر ہے جس کو حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں عتبہ بن غزوان نے آباد کیا تھا اور اس شہر میں کبھی بت پرستی نہیں ہوئی۔ حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد ہے حدیث میں جس واقعہ کی پیشگوئی فرمائی ہے اس میں صریحا بصرہ کا ذکر ہوا ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ اس سے بغداد مراد ہے اور بغداد مراد لینے کی دلیل یہ ہے کہ دریائے دجلہ کی گزرگاہ بصرہ نہیں بلکہ بغداد ہے اور اس دریا پر جس پل کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بغداد ہی میں ہے۔ علاوہ ازیں بغداد کا شہر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس طرح کا شہر نہیں تھا جیسا کہ اب ہے بلکہ اس زمانہ میں اس جگہ منتشر طور پر کچھ قرئیے اور دیہات تھے جو بصرہ کے مضافات میں شمار ہوتے تھے اور ان کی نسبت بصرہ ہی کی طرف جاتی تھی، چناچہ آنحضرت ﷺ نے گویا معجزہ کے طور پر، ان دیہاتی علاقوں کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوجانے کی پیش خبری بیان فرمائی اور بصیغہ مستقبل یہ فرمایا کہ وہ اسلامی شہروں میں سے ایک بڑا شہر ہوگا اور کثیر آبادی پر مشتمل ہوگا یہ بات محض تاویل کے درجے کی نہیں بلکہ اس کی پشت پر تاریخی دلیل بھی ہے چناچہ تاریخ میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ترکوں نے کبھی بصرہ پر حملہ کیا ہو اور ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کشت وخون کی وہ صورت پیش آئی ہو جس کی طرف حضور ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا۔ البتہ بغداد پر ترکوں (تاتاریوں) نے ضرور حملہ کیا ہے جو آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے زمانہ کا واقعہ ہے جس کی کچھ تفصیل تاریخی کتابوں سے اخذ کر کے ہم نے مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں بھی بیان کی ہے، پس واضح ہوا کہ حدیث میں بصرہ کا ذکر محض اس سبب سے ہے کہ بغداد جسکی بہ نسبت بصرہ زیادہ قدیم شہر ہے اور وہ دیہات ومواضع کہ جہاں بغداد کی تعمیر ہوئی اور یہ عظیم شہر بنا، بصرہ ہی کی طرف منسوب تھے اور یہ وہ بصرہ تھا جو بعد میں بھی بغداد کی شہر فصیل کے باہر ایک چھوٹی سی آبادی کی صورت میں تھا اور اس سمت شہر کے دروازہ کو اسی نام کی مناسبت سے باب البصرہ کہا جاتا تھا۔ لہٰذا حضور ﷺ نے بغداد کے ذکر کے لئے گویا اس شہر کے جزوی نام کے ذکر پر اکتفا فرمایا یا یہ کہ یہاں اصل مراد تو بغداد البصرہ کا ذکر تھا مگر مضاف کو حذف کر کے صرف بصرہ کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا کہ قرآن کریم کی اس آیت (وَسْ َ لِ الْقَرْيَةَ ) 12۔ یوسف 82) میں اللہ تعالیٰ نے صرف قریہ کا ذکر فرمایا ہے جب کہ اس سے مراد اہل قریہ ہیں۔ اس صورت میں حدیث کے ابتدائی جز کا حاصل یہ نکلا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ دریائے دجلہ کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور اس جگہ کو اپنا مرکزی شہر بنائیں گے یہاں تک کہ وہ چھوٹی سی جگہ ایک ایسے شہر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شمار مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں اور اسلامی مراکز میں ہوگا اور یہ وہ شہر ہے جس کو بغداد کہا جاتا ہے اس موقع پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تاریخ میں بغداد کو جو عظمت و اہمیت اور مرکزیت حاصل ہوئی اور وہ جتنا عظیم شہر بنا اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حضور ﷺ نے لفظ امصار استعمال فرمایا امصار اصل میں مصر کی جمع ہے اور بڑے شہر کو کہتے ہیں اس سے نیچے کی آبادیوں کو بالترتیب مدینہ، بلدہ اور قریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قنطورا کی اولاد سے مراد ترک قوم ہے۔ اس قوم کے وارث اعلیٰ کا نام قنطورا تھا، اس لئے پوری ترک قوم کو قنطورا کی اولاد سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اور دوسرا حصہ اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا کے سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق خلیفہ مستعصم باللہ اور اس کے حوالی موالی تھے جیسا کہ مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے، جب ہلاکو خان (ترکوں یعنی تاتاریوں کے سردار) نے اپنی بےامان فوج کے ساتھ بغداد پر حملہ کیا تو خلیفہ مستعصم باللہ نے اپنے لواحقین اور درباریوں کے ساتھ ہلاکو خان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اور اہل شہر کی جانوں کی امان طلب کی، لیکن کسی کو بھی امان نہیں ملی اور خلیفہ سمیت سارے لوگ ہلاک وتباہ کر دئیے گئے اور ہلاکو خان کے فوجیوں نے ایک ایک آدمی کو چن چن کر مار ڈالا۔ ایک شارح نے لکھا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضور ﷺ نے اس حدیث میں بصرہ کے ذکر سے بغداد مراد لیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں موجودہ بغداد کا علاقہ بصرہ کے مضافاتی قریوں اور دیہات کی صورت میں تھا اور حضور ﷺ نے جزوی طور پر پورے نام کا طلاق کرتے ہوئے گویا بغداد البصرہ کے بجائے صرف بصرہ کا ذکر فرمانا کافی جانا تو اس صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ کے فرمانے کے مطابق مسلمانوں نے دریائے دجلہ کے کنارے بغداد کا شہر بسایا، اس کو ترقی اور عظمت سے ہمکنار کیا وہ مسلمانوں کا ایک مرکزی اور بہت بڑا شہر بنا، پھر ترکوں نے حملہ کیا اور اس حملہ کے نتیجے میں اہل شہر کا تقریبا پورا حصہ ان ترکوں کے ہاتھوں کشت وخون کی نذر ہوگیا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد نہیں بلکہ بصرہ کا موجودہ شہر ہے۔، تو پھر یہ کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کی مذکورہ پیش گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی اور ہوسکتا ہے کہ کسی وقت آنے والے زمانہ میں اس شہر کے مسلمانوں کو مذکورہ پیش گوئی کے مطابق کسی اسلام دشمن طاقت کے حملہ وجارحیت کا شکار ہونا پڑے، کیونکہ جہاں تک پچھلے زمانہ کا تعلق ہے، تاریخ سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ بصرہ پر بھی اسلام دشمن طاقت نے اس طرح کا حملہ کیا ہو اور وہاں کے مسلمانوں کو اس طرح کشت وخون کا سامنا کرنا پڑا ہو جس طرح کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبے پر پہنچیں گے یعنی اس شہر کے مسلمانوں کا تیسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو غازی مجاہد فی سبیل اللہ ہوں گے اور اس سخت طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت جان نثاری اور حوصلہ و استقامت کے ساتھ میدان میں آجائیں گے اور قبل اس کے کہ دشمن اہل اسلام پر حاوی اور غالب ہوجائے، اس سے لڑ کر اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دیں گے، پس وہ لوگ شہید ہوں گے اور کامل شہادت کا مرتبہ پائیں گے، ان میں سے جو لوگ زندہ بچ جائیں گے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی اس موقع پر ایک اور شارح نے کہا ہے کہ یہ حدیث گرامی آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کیونکہ سب کچھ اس طرح واقع ہوا جس طرح کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے بغداد پر ترکوں کے حملے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ماہ صفر ٦٥٦ ھ میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس وقت تاتاری ترکوں نے ہلاکو خان کی سربراہی میں بغداد کو جس طرح تاراج کیا، مسلمانوں کا جس کثرت اور بےدردی سے خون بہایا، شہر کے محلات ومکانات حتی کہ کتب خانوں اور علمی مراکز کو جس طرح جلا کر راکھ کردیا اور اس آگ کے شعلوں نے جس طرح پورے عالم اسلام کو متاثر و کمزور کیا وہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کی تفصیل بیان کرنے سے زبان وقلم قاصر ہیں۔
Top