آنحضرت ﷺ نیک فال لینے کے لئے اچھے ناموں کا سننا پسند فرماتے تھے
اور حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی چیز سے شگون بد نہ لیتے تھے اور جب آپ ﷺ کسی عامل (کارکن کو کہیں) روانہ کرنے لگتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو آپ ﷺ اس سے خوش ہوئے اور آپ ﷺ کی خوشی سے ظاہر ہوتی (یہاں تک کہ آپ ﷺ اس کے نام کو کسی اچھے نام سے بدل دیتے) اسی طرح جب آپ ﷺ کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام پوچھتے اگر آپ ﷺ کو اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو اس سے خوش ہوتے اور آپ ﷺ کی ناگواری آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوتی ( ابوداؤد)
تشریح
کسی برے نام کو سن کر ناگواری ہونا تطیر ( یعنی شگون بد لینا) نہیں ہے تطیر تو اس صورت میں ہوتا جب آپ ﷺ برے نام کو سن کر اپنے کام یا اپنے سفر کو ترک کردیتے جیسا کہ شگون بد لینے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم کسی شخص یا آبادی کا برا اور بھدا نام سن کر آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نمایاں ہوتے تھے کیونکہ طبیعت کا اچھائی و برائی سے متاثر ہونا اور اس کے نتیجے میں خوشی یا ناخوشی کا ظاہر ہونا تفاؤل وتطیر سے قطع نظر ایک فطری بات ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد یا اپنے خادم کے لئے اچھے نام کو اختیار کرنا سنت ہے، کیونکہ بسا اوقات برے نام تقدیر کے موافق ہوجاتے ہیں اور اس کے نتائج دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار رکھے تو ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر خود وہ شخص یا اس کا وہ بیٹا تقدیر الہٰی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہوجائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی صحبت وہم نشینی تک سے احتراز کرنے لگیں۔