مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4737
وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفاء في ثلاث في شرطة محجم أو شربة عسل أو كية بنار وأنا أنهى أمتي عن الكي . رواه البخاري .
پانی کا ایک اور معجزہ
اور حضرت ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ( ایک سفر کے دوران) ہمارے سامنے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم اس رات کے اول حصہ میں اور آخر حصہ میں ( یعنی رات) سفر کرو گے اور انشاء اللہ کہ تمہیں پانی مل جائے گا ( یعنی آپ ﷺ نے گویا اس پانی کی طرف اشارہ فرمایا جو بطریق معجزہ حاصل ہونا تھا اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے) چناچہ تمام لوگ اس طرح ( بےتحاشا) چلنے لگے کہ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں تھی ( کیونکہ ہر شخص پر بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح جلد سے جلد پانی تک پہنچ جائے اور اس دھن میں نہ کسی کو کسی کا ساتھ پکڑنے کا خیال تھا اور نہ کوئی کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی طرف دھیان دے رہا تھا (بلکہ ہر شخص علیحدہ علیحدہ چلا جا رہا تھا )۔ ابو قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ( اسی رات میں) رسول کریم ﷺ بھی چلے جا رہے تھے کہ جب آدھی رات گزر گئی تو آپ ﷺ ( سونے کے ارادہ سے) راستہ سے ہٹ کر ( ایک کنارے پر) اتر گئے اور سر رکھ کر لیٹ گئے اور اور ( سونے سے پہلے کسی خادم کو ہدایت فرمائی کہ ہماری نماز کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کی سب لوگ بیخبر سو جائیں اور فجر کے وقت آنکھ نہ کھلنے کے سبب نماز قضاء ہوجائے، لیکن ایسا ہی ہوا کہ سب لوگ بیخبر ہوگئے اور نیند کے غلبہ سے فجر کے وقت کسی کی بھی آنکھ نہیں کھلی) پھر سب سے پہلے رسول کریم ﷺ بیدار ہوئے جب کہ دھوپ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر پڑنے لگی آپ ﷺ نے (سب کو جگا کر) فرمایا کہ فورا تیار ہوجاؤ ( اور یہاں سے چل دو ) چناچہ ہم لوگ ( جلدی جلدی) اپنی سواریوں پر بیٹھے اور وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ جب سورج ( ایک نیزہ کے بقدر یا اس سے زیادہ) بلند ہوا تو آنحضرت ﷺ ( سواری) سے اتر گئے، پھر آپ ﷺ نے وضو کا برتن منگایا جو میرے پاس تھا اور جس میں تھوڑا سا پانی باقی تھا اور اس سے آپ ﷺ نے مختصر وضو کیا ( یعنی جن اعضاء کو تین تین بار دھویا جاتا ہے ان کو آپ ﷺ نے پانی کی قلت کے سبب ایک ایک بار یا دو دو بار ہی دھونے پر اکتفا کیا )۔ اور ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ( وضو کے بعد) ذرا سا اس برتن میں بچ گیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا اس برتن ( کے پانی) کو حفاظت سے رکھنا، اس لئے کہ عنقریب اب پانی سے ( بطریق معجزہ) ایک ( اہم اور عظیم الشان) بات ظہور پذیر ہوگی ( جس کا بڑا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا) اس کے بعد بلال ؓ نے نماز کے لئے اذان کہی اور رسول کریم ﷺ نے ( سنت کی) دو رکعتیں پڑھ کر ( ہمراہی صحابہ کے ساتھ) فجر کی قضاء نماز باجماعت ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد آنحضرت ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی اپنی سواریوں پر بیٹھ گئے ( اور آگے کا سفر شروع ہوگیا) یہاں تک کہ ہم ( قافلہ کے ان لوگوں سے جا ملے ( جو ہم سے کچھ آگے جا کر اترے تھے، اس وقت دن چڑھ چکا تھا اور سورج اوپر آگیا تھا جس سے ہر چیز تپنے لگی تھی لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہم تو ہلاک ہوگئے ( یعنی گرم ہوا کے تھپیڑوں اور دھوپ کی تمازت نے ہمارا برا حال کردیا ہے) اور چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے) پیاس ( کی شدت بڑھ رہی ہے )۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے ہلاکت نہیں )۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کے پانی کا وہی برتن طلب فرمایا اور اس برتن سے پانی ڈالنا شروع کردیا اور ابوقتادہ ؓ نے لوگوں کو پلانا شروع کیا، اہل قافلہ نے جیسے ہی اس برتن سے پانی گرتے ( اور کچھ لوگوں کو پیتے) دیکھا تو سب کے سب ایک دم ٹوٹ پڑے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، آنحضرت ﷺ نے ( ان کی بےصبری دیکھ کر) فرمایا خوش اسلوبی اختیار کرو اور اخلاق سے کام لو، تم سب مل کر اس پانی سے) سیراب ہوجاؤ گے۔ چناچہ فورًا ہی) سب لوگوں نے تنظیم وخوش اسلوبی اختیار کر ( اور الگ الگ ہو کر وقار و قطار کے ساتھ کھڑے ہوگئے) پھر رسول کریم ﷺ نے پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ لو پیو، میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک نہیں پی سکتا جب تک آپ ﷺ نہ پی لیں، آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کا ساقی ان کا آخری آدمی ہوتا ہے۔ یعنی جو شخص لوگوں کو پلاتا ہے وہ خود سب کے بعد پیتا ہے کیونکہ یہ آداب میں سے ہے کہ ساقی جب سب کو سیراب کرلے تب خود پئے، حضرت ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ( ارشاد گرامی کی اتباع میں) میں نے پی لیا اور پھر آنحضرت ﷺ نے پانی نوش فرمایا۔ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اہل قافلہ پانی ( کی جگہ) پر اس حال میں پہنچے کہ سیراب تھے اور راحت پاچکے تھے۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور صحیح مسلم میں اسی طرح منقول ہے۔ نیز کتاب حمیدی اور جامع الاصول میں بھی یہ روایت ان ہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے، البتہ مصابیح میں، ساقی القوم اخرہم کے بعد شربا کا لفظ مزید ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ نے جو آنکھ کھلتے ہی قضاء نماز نہیں پڑھی بلکہ اس کو کچھ مؤخر کر کے اس جگہ سے روانہ ہوگئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی جگہ پہنچ کر نماز پڑھنا چاہتے تھے، جہاں پانی دستیاب ہو، یا یہ وجہ تھی کہ جس وقت آپ ﷺ کی آنکھ کھلی وہ نماز کے لئے وقت کراہت تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس وقت کراہت کو نکالنے کے لئے نماز کو کچھ اور مؤخر کیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے جیسا کہ پہلی روایت کے الفاظ فرکبنا فسرنا حتی اذا ارتفعت الشمس دلالت کرتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس جگہ سے فورا منتقل ہوجانا چاہئے جہاں حکم الٰہی کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہو یا کسی ممنوع بات کا ارتکاب ہوگیا ہو اگرچہ وہ ارتکاب قصدا نہ ہوا ہو۔ نیز آپ ﷺ نے فجر کی قضاء نماز ادا کرنے سے پہلے جو رکعتیں پڑھیں وہ سنتیں تھیں اور مسئلہ یہی ہے کہ اگر آنکھ نہ کھلنے یا کسی اور سبب سے فجر کی نماز وقت پر ادا نہ ہو سکے اور پھر اس کی قضاء زوال آفتاب سے پہلے ادا کی جائے تو اس کے ساتھ سنت کی دو رکعتیں بھی پڑھنی چاہئیں، ہاں اگر فرض نماز فوت نہ ہوئی ہو بلکہ صرف سنتیں فوت ہوئی ہوں تو اس کی قضا نہیں ہے لیکن امام محمد کا قول یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد زوال آفتاب سے پہلے فوت شدہ سنتوں کی قضاء نماز پڑھ لینی چاہئے، گویا کسی بھی امام کے مسلک میں زوال آفتاب کے بعد اس کی قضاء نہیں ہے۔ فجر کی قضاء نماز ( باجماعت) ادا کی سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس بھی اپنے اپنے برتن تھے جن میں وہ اتنا پانی رکھتے تھے کہ اس وقت وضو کرکے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس اتنا بھی پانی نہیں تھا کہ آنحضرت ﷺ کی طرح مختصر ہی وضو کرلیتے، لہٰذا انہوں نے تیمم کر کے نماز میں شرکت کی، بہر حال اس سلسلہ میں حدیث کے الفاظ بالکل خاموش ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ باقی لوگوں نے وضو کیا یا تیمم کیا تھا۔ تم پر ہلاکت نہیں ہے اس ارشاد کے ذریعہ آپ ﷺ نے لوگوں کو گویا تسلی و بشارت دی کہ گھبراؤ نہیں، تمہیں کسی ہلاکت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے غیب سے پانی بھیجے گا، اس اعتبار سے یہ جملہ خبریہ ہوا، یا یہ کہ ارشاد دراصل جملہ دعائیہ تھا یعنی آپ ﷺ نے گویا یہ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں ہلاکت سے دور رکھے اور عیب سے تمہاری سیرابی کا انتظام فرمائے۔
Top