Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3969 - 4060)
Select Hadith
3969
3970
3971
3972
3973
3974
3975
3976
3977
3978
3979
3980
3981
3982
3983
3984
3985
3986
3987
3988
3989
3990
3991
3992
3993
3994
3995
3996
3997
3998
3999
4000
4001
4002
4003
4004
4005
4006
4007
4008
4009
4010
4011
4012
4013
4014
4015
4016
4017
4018
4019
4020
4021
4022
4023
4024
4025
4026
4027
4028
4029
4030
4031
4032
4033
4034
4035
4036
4037
4038
4039
4040
4041
4042
4043
4044
4045
4046
4047
4048
4049
4050
4051
4052
4053
4054
4055
4056
4057
4058
4059
4060
مشکوٰۃ المصابیح - شکار کا بیان - حدیث نمبر 6323
عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل أمتي مثل المطر لا يدرى أوله خير أم آخره . رواه الترمذي
امت محمدی ﷺ کی مثال
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کا حال بارش کے حال کی طرح ہے جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا اول بہتر یا اس کا آخر بہتر ہے۔ (ترمذی)
تشریح
بارش کی مثال کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کا ذکر جس انداز میں کیا اس سے بظاہر تو شک وتردد اور عدم یقین اس میں سمجھا جاتا ہے کہ معلوم نہیں کہ اس امت کے پہلے لوگ بہتر تھے یا بعد کے لوگ بہتر ہیں، لیکن حقیقت میں حدیث سے یہ مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ بارش کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ پوری امت اچھی ہے جیسا کہ سوکھے اور خشک موسم میں جب باران رحمت نازل ہوتی ہے تو وہ پوری بارش ہی اچھی اور نافع مانی جاتی ہے، اس طرح امت محمدی ﷺ میں پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والے اور بعد کے زمانوں کے سچے اور نیک مسلمان بھی خیر یعنی اچھا ہونے اور فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے برابر ہیں، پس لفظ خیر دین کے اعتبار سے فضیلت ظاہر کرنے والے اسم تفصیل کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے۔ رہا یہ سوال کہ امت کے اول اور آخر دونوں سے تعلق رکھنے والے اچھا اور نافع ہونے میں برابر کیسے ہیں؟ تو وہ یوں کہ دور اول کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت ورفاقت کا شرف پایا، آنحضرت ﷺ کی ہر حالت میں اتباع کی، آپ ﷺ کی دعوت اسلام دوسروں تک پہنچائی، آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کے پیش کئے ہوئے دین کے فوائد و ہدایات کی بنیاد رکھی۔ آپ ﷺ کے دین متین کو اعانت وتقویت پہنچائی اور آنحضرت ﷺ کی ہر طرح سے مدد و حمایت کی تو بعد کے امتیوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت اور رسالت اور آپ ﷺ کی شریعت کو جو کا توں تسلیم کیا، رسالت و شریعت کے ہر جز پر مضبوط عقیدے کے ساتھ جمے رہے، آپ ﷺ کے دین کی حفاظت اور دین کو استحکام و رواج دیا دینی قواعد و ہدایات کی بنیاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، یا دین و شریعت کے ارکان کو مضبوط ومستحکم کیا، اسلام کے جھنڈے کو سر بلند کیا، اسلام کی روشنی کو چار دانگ عالم میں پھیلایا اور اس کے برکات و اثرات تمام عالم پر ظاہر کئے اور اگر لفظ خیر کو اسم تفضیل کے معنی پر محمول کیا جائے تو بھی اس اعتبار سے درست ہوسکتا ہے کہ خیر (بہتر ہونے) کے وجوہ اور اسباب متعدد ہوتے ہیں جن اسباب و وجوہ کے اعتبار سے دور اول کے امتی بہتر تھے، ان کے علاوہ بعض اور اسباب و وجوہ سے بعد کے زمانہ کے امتی بہتر ہیں گو یا حاصل یہ نکلا کہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نافع اور اچھا ہونے کے اعتبار سے پوری امت یکساں اور برابر ہے اور اس پر بھی دلالت کرتی ہے، کہ وجوہ و اسباب کے تعدد وا ختلاف کے مد نظر دور اول کے امتی اپنے اعتبار سے بہتر ہیں اور بعد کے زمانہ کے امتی اپنی نو عیت سے بہتر ہیں، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے وہ صرف دور اول کے امتیوں یعنی صحابہ کے لئے مخصوص ہے۔ اگرچہ یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص درجہ و نوعیت کے تحت بعد کے امتیوں میں سے کسی کے لئے جزوی فضیلت ثابت کی جائے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ کلی فضیلت سے مراد اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ثواب پانا ہے۔ اور تور پشتی نے لکھا ہے یہ حدیث بعد کے امتیوں پر دور اول کے امتیوں کی فضیلت و برتری میں شک وتردد پر ہرگز محمول نہیں ہے کیونکہ قرن اول ( صحابہ کا زمانہ) تمام قرنوں سے بلا شک وشبہ افضل ہے پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد والے تمام قرنوں سے افضل ہیں اور پھر اس کے بعد کے قرن کے امتی اپنے بعد والے تمام قرنوں سے افضل ہیں پس اس حدیث کی مراد بس یہ بیان کرنا ہے کہ دین و شر یعت پھیلا نے کے اعتبار سے پوری امت نافع ہے۔ اسی طرح کی بات قاضی نے بھی ایک طویل عبارت میں لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح بارش کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کون سا حصہ زیادہ مفید اور نفع بخش ہے اور کس وجوہ سے خیر کا وجود ہے اور کن افراد میں خیر کا وجود نہیں ہے، کیونکہ وجود خیر کی مختلف جہتیں اور مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں اور اس اعتبار سے امت کا ہر دور اپنی اپنی حیثیت اور جہت سے وجود خیر کا حامل ہوگا، تاہم الفضل للمتقدم کے اصول کے تحت فضیلت انہی امتیوں کے لئے ہے جو دور اول میں تھے، یعنی صحابہ اور یہ حدیث بعد کے زمانے والے امتیوں کے لئے تسلی کا مصدر ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ رب العلمین کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اس کی بار گاہ سے حصول فیض کی توقع ہر حال میں باقی ہے۔ اس حدیث کی شرح میں طیبی لکھتے ہیں، امت کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے وہ محض ہدایت اور علم کو سامنے رکھ کردی گئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں بارش کو ہدایت اور علم کے مشابہت دی ہے پس حدیث مذکورہ میں امت جس کو بارش کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے اس سے مراد علماء کاملین ہیں کہ جو خود بھی کامل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی درجہ کمال تک پہنچاتے ہیں، یہ وضاحت بھی گویا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خیر سے نفع کے معنی مراد لئے جائیں جس سے فضیلت میں پوری امت کا یکساں ہونا لازم نہیں آتا، خلا صہ کلام یہ کہ امت محمدی اپنے کسی دور میں خیر سے خالی نہیں رہے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے پوری امت کو امت مرحومہ فرمایا ہے اور یہ ثمرہ ہے اس بات کا کہ اس امت کا نبی نبی رحمت ہے بخلاف دوسری امتوں کے کہ ان کے ہاں خیر کا وجود صرف ابتدائی دور میں رہا اور پھر بعد والوں میں شر آگیا اور اس طرح آیا کہ انہوں نے اپنی مقدس آسمانی کتابوں تک کو بدل ڈالا اور تحریفیں کر کر کے اپنے دین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس پر ان کے دور اول کے لوگ تھے۔
Top