دیت مقتول کے ورثاء کا حق ہے
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ بستیوں والوں پر قتل خطاء کی دیت چار سو دینار یا اس کے مساوی قیمت (یعنی چاندی کے چار ہزار درہم) مقرر فرماتے اور یہ مقدار اونٹوں کی قیمت کے مطابق ہوتی تھی۔ چناچہ جب اونٹوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو آپ ﷺ دیت کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے تھے اور جب اونٹوں کی قیمت میں کمی واقع ہوتی تو آپ ﷺ دیت کی مقدار میں کمی کردیتے تھے، یہی وجہ سے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیت کی مقدار چار سو دینار سے آٹھ سو دینار یا اس کی مساوی قیمت (چاندی کے آٹھ ہزار درہم) تک رہی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں (بطور دیت) مقرر فرمائی تھیں۔ نیز رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔ اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے اور قاتل (نے اگر اپنے مورث ہی کو قتل کیا ہے تو وہ) مورث کی وراثت سے محروم رہے گا (نہ اسے مقتول کی دیت میں سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ وہ اس کے ترکے میں سے کسی چیز کا حقدار ہوگا )۔ (ابو داؤد، نسائی )
تشریح
طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی اب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے یعنی دیت اصل میں تو اونٹ ہی کی صورت میں اور اس کی مذکورہ تعداد میں واجب ہوگی جیسا کہ قول جدید کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے۔ عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جنایت کی مرتکب ہوئی اور اس نے کسی کو مارا تو اس کی دیت اس کے عصبات یعنی اس کے مددگار اور خاندان والوں پر ہوگئی جیسا کہ مرد کے بارے میں حکم ہے گویا یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اس بارے میں عورت غلام کے مانند نہیں ہوگی کہ جس طرح غلام کی دیت خود اس پر واجب ہوتی ہے اس کے عصبات پر واجب نہیں ہوتی۔ اس طرح عورت کی دیت خود اس پر واجب نہیں ہوگی بلکہ اس کے عصبات پر واجب ہوگی۔