Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (5045 - 5119)
Select Hadith
5045
5046
5047
5048
5049
5050
5051
5052
5053
5054
5055
5056
5057
5058
5059
5060
5061
5062
5063
5064
5065
5066
5067
5068
5069
5070
5071
5072
5073
5074
5075
5076
5077
5078
5079
5080
5081
5082
5083
5084
5085
5086
5087
5088
5089
5090
5091
5092
5093
5094
5095
5096
5097
5098
5099
5100
5101
5102
5103
5104
5105
5106
5107
5108
5109
5110
5111
5112
5113
5114
5115
5116
5117
5118
5119
مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 1957
روزے کے فوائد۔
روزہ کے فوائد کسی بھی عبادت اور کسی بھی عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہوجائے اور پروردگار کی رحمت کاملہ اس عمل اور عبادت کرنے والے کو دین اور دنیا دونوں جگہ اپنی آغوش میں چھپالے ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے روزہ کا فائدہ بھی بڑا ہی عظیم الشان ہوگا مگر اس کے علاوہ روزے کے کچھ اور بھی روحانی اور دینی فوائد ہیں جو اپنی اہمیت و عظمت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں لہٰذا ان میں سے کچھ فائدے بیان کئے جاتے ہیں۔ (١) روزہ کی وجہ سے خاطر جمعی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے نفس امارہ کی تیزی و تندی جاتی رہتی ہے، اعضاء جسمانی اور بطور خاص وہ اعضاء جن کا نیکی اور بدی سے براہ راسات تعلق ہوتا ہے جیسے ہاتھ، آنکھ، زبان، کان اور ستر وغیرہ سست ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گناہ کی خواہش کم ہوجاتی ہے اور معصیت کی طرف رجحان ہلکا پڑجاتا ہے۔ چناچہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء سیر ہوتے ہیں یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیں ہوتی اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاء بھوکے ہوتے ہیں انہیں اپنے کام کی طرف رغبت ہوتی ہے اس قول کو وضاحت کے ساتھ یوں سمجھ لیجئے کہ جسم کے جتنے اعضاء ہیں قدرت نے انہیں اپنے مخصوص کاموں کے لئے پیدا کیا ہے مثلاً آنکھ کی تخلیق دیکھنے کے لئے ہوئی ہے گویا آنکھ کا کام دیکھنا ہے لہٰذا بھوک کی حالت میں کسی بھی چیز کو دیکھنے کی طرف راغب نہیں ہوتی ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو آنکھ اپنا کام بڑی رغبت کے ساتھ کرتی ہے اور ہر جائز و ناجائز چیز کو دیکھنے کی خواہش کرتی ہے اسی پر بقیہ اعضاء کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ (٢) روزہ کی وجہ سے دل کدورتوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے کیونکہ دل کی کدورت آنکھ، زبان اور دوسرے اعضاء کے فضول کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یعنی زبان کا ضرورت و حاجت سے زیادہ کلام کرنا، آنکھوں کا بلا ضرورت دیکھنا، اسی طرح دوسرے اعضاء کا ضرورت سے زیادہ اپنے کام میں مشغول رہنا افسردگی دل اور رنجش قلب کا باعث ہے اور ظاہر ہے کہ روزہ دار فضول گوئی اور فضول کاموں سے بچا رہتا ہے بدیں وجہ اس کا دل صاف اور مطمئن رہتا ہے اس طرح پاکیزگی دل اور اطمینان قلب اچھے و نیک کاموں کی طرف میلان ورغبت اور درجات عالیہ کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ (٣) روزہ مساکین و غرباء کے ساتھ حسن سلوک اور ترحم کا سبب ہوتا ہے کیونکہ جو شخص کسی وقت بھوک کا غم جھیل چکا ہوتا ہے اسے اکثر و بیشتر وہ کر بناک حالت یاد آتی ہے چناچہ وہ جب کسی شخص کو بھوکا دیکھتا ہے تو اسے خود اپنی بھوک کی وہ حالت یاد آجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا جذبہ ترحم امنڈ آتا ہے۔ (٤) روزہ دار اپنے روزہ کی حالت میں گویا فقراء مساکین کی حالت بھوک کی مطابقت کرتا ہے بایں طور کہ جس اذیت اور تکلیف میں وہ مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی تکلیف اور مشقت کو روزہ دار بھی برداشت کرتا ہے اس وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے جیسا کہ ایک بزرگ بشرحافی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں جاڑے کے موسم میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے کانپ رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس اتنے کپڑے موجود تھے جو ان کو سردی سے بچا سکتے تھے۔ مگر وہ کپڑے الگ رکھے ہوئے تھے۔ اس شخص نے یہ صورت حال دیکھ کر ان سے بڑے تعجب سے پوچھا کہ آپ نے سردی کی اس حالت میں اپنے کپڑے الگ رکھ چھوڑے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے بھائی فقراء و مساکین کی تعداد بہت زیادہ ہے مجھ میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ میں ان کے کپڑوں کا انتظام کروں لہٰذا (جو چیز میرے اختیار میں ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں کہ) جس طرح وہ لوگ سردی کی تکلیف برداشت کر رہے ہیں اس طرح میں بھی سردی کی تکلیف برداشت کر رہا ہوں اس طرح میں بھی ان کی مطابقت کر رہا ہوں۔ یہی جذبہ ہمیں ان اولیاء عارفین کی زندگیوں میں بھی ملتا ہے جن کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کھانے کے وقت ہر ہر لقمہ پر یہ دعائیہ کلمات کہا کرتے تھے۔ اللہم لا تواخذنی بحق الجائعین۔ اے اللہ مجھ سے بھوکوں کے حق کے بارے میں مواخذہ نہ کیجئے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں منقول ہے کہ جب قحط سالی نے پورے ملک کو اپنے مہیب سایہ میں لے لیا باوجودیکہ خود ان کے پاس بےانتہا غلہ کا ذخیرہ تھا مگر وہ صرف اس لئے پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے کہ کہیں بھوکوں کا خیال دل سے اتر نہ جائے نیز یہ انہیں اس طرح بھوکوں اور قحط زدہ عوام کی تکلیف و مصیبت سے مشابہت اور مطابقت حاصل رہے۔
Top