زنا بالجبر میں صرف مرد پر حد جاری ہوگی
اور حضرت وائل ابن حجر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی یعنی ایک مرد نے اس سے زبردستی زنا کیا اس عورت کو تو حد سے برأت دی گئی لیکن اس زنا کرنے والے پر حد جاری کی گئی۔ راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس عورت کو زنا کرنے والے سے مہر بھی دلوایا۔ (ترمذی)
تشریح
راوی کے ذکر نہ کرنے سے لازم نہیں آتا کہ ایسی صورت میں مہر واجب نہیں ہوتا کیونکہ دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جس عورت سے زنا بالجبر کیا گیا ہو اس کے لئے مہر واجب ہوتا ہے اور یہاں مہر سے مراد عقر صحبت حرام اور صحبت تشبہ کے مابین (عوض اور بدلہ) کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسی مقدار پر ہوتا ہے کہ اگر حرام صحبت کی اجرت یعنی حلال ہوتی تو وہ مقدار واجب ہوتی۔ برجندی فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ عقر مہر مثل کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بالجبر کی صورت میں زنا کرنے والے مرد سے عورت کو جو رقم دلوائی جائے گی اس کی مقدار اس عورت کے مہر کے مثل کے برابر ہونی چاہئے۔ اور حضرت وائل ابن حجر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک دن ایک عورت نماز کے لئے گھر سے نکلی تو راستہ میں اس کو ایک شخص ملا جس نے اس پر کپڑا ڈال کر اس سے اپنی حاجت پوری کرلی یعنی اس کے ساتھ زبردستی زنا کیا وہ عورت چلائی اور وہ مرد اس کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا، جب کچھ مہاجر صحابہ ادھر سے گزرے تو اس عورت نے ان کو بتایا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے یعنی میرے اوپر کپڑا ڈال کر مجھے بےبس کردیا اور پھر مجھ سے بدکاری کی لوگوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لائے اور سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت ﷺ نے اس عورت سے تو یہ فرمایا کہ جاؤ تمہیں اللہ تعالیٰ نے بخشش دیا ہے۔ (کیونکہ اس بدکاری میں نہ صرف یہ کہ تمہاری خواہش ورضا کا داخل نہیں تھا بلکہ تمہیں مجبور وبے بس بھی کردیا گیا تھا) اور جس شخص نے اس عورت سے بدکاری کی تھی اس کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ اس کو سنگسار کردیا جائے یعنی اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور چونکہ وہ محصن تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو سنگسار کردو چناچہ اس کو سنگسار کردیا گیا۔ اس سنگسار کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے اوپر حد جاری کرا کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس طرح کی توبہ مدینہ والے کرتے تو ان کی توبہ قبول کی جاتی۔ (ترمذی ابوداؤد ) تشریح حدیث کے آخر جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے جرم کی سزا بھگت کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو اہل مدینہ کے درمیان تقسیم کیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ ان سب کی توبہ قبول کی جاتی بلکہ اس کا ثواب سارے مدینے والوں کے لئے کافی ہوجاتا۔ گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے یہ واضح کیا کہ اس شخص نے اگرچہ شروع میں ایک بڑی بےحیائی کا ارتکاب کیا اور سخت برا کام کیا مگر جب اس پر حد جاری کردی گئی تو وہ اپنے جرم سے پاک ہوگیا اور بخش دیا گیا۔