منافق اگر جہاد میں شہید بھی ہوجائے تو جنت کا حقدار نہیں ہوگا
اور حضرت عتبہ ابن عبدالسلمی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ جہاد میں مارے جاتے ہیں وہ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کامل مؤمن جس نے اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ جہاد کیا چناچہ جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی (تو وہ پوری بہادری اور شجاعت) کے ساتھ لڑا یہاں تک کہ مارا گیا نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ شہید ہے جس کو جہاد کی مشقتوں اور مصائب پر صبر کرنے کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا یہ شہید آخرت میں عرش الہٰی کے نیچے اللہ کے خیمے میں ہوگا یعنی اس کو حق تعالیٰ کا کمال قرب اور اس کے حضور میں درجہ خاص حاصل ہوگا اور انبیاء اس سے صرف درجہ نبوت میں زیادہ ہوں گے اور دوسرے شخص وہ مؤمن ہے جس کے اعمال ملے جلے ہوں کہ اس نے کچھ نیک عمل کئے ہوں اور کچھ برے عمل چناچہ اس نے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ لڑا یہاں تک کہ مارا گیا نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ شہادت یا خصلت، پاک کرنے والی ہے کہ اس کے گناہوں اور خطاؤں کو مٹاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تلوار خطاؤں کو بہت زیادہ مٹانے والی ہے یہ وہ شہید ہے کہ جس دروازے سے جانا چاہے گا جنت میں داخل کیا جائے گا اور تیسرا شخص منافق ہے کہ ( اگرچہ) اس نے بھی اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ جہاد کیا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو (خوب) لڑا یہاں تک کہ مارا گیا (لیکن) یہ شخص دوزخ میں جائے گا کیونکہ تلوار نفاق کو نہیں مٹاتی۔ (دارمی )