Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1499 - 1573)
Select Hadith
1499
1500
1501
1502
1503
1504
1505
1506
1507
1508
1509
1510
1511
1512
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 50
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَائْتُمِنَ خَانَ۔(صحیح مسلم)
منافق کی علامتیں
اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا! منافق کی تین علامتیں ہیں، اس کے بعد مسلم نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرے اس کے بعد صحیح البخاری و صحیح مسلم دونوں متفق ہیں (وہ تین علامتیں یہ ہیں) جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جب بھی کوئی اصلاحی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگتی ہے اور معاشرہ پر اس کا تسلط پھیلتا جاتا ہے تو اس کے متفقین اور مخالفین کے درمیان ایک تیسرا طبقہ بھی پیدا ہوجاتا ہے، یعنی ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس تحریک کے مکمل ہمنوا بن جاتے ہیں اور کامل ذہنی و جسمانی وابستگی کے ساتھ اس کے دائرہ اثر و اطاعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کے مقابلہ پر دوسرا طبقہ مخالفین کا ہوتا ہے جو تحریک کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے اور اپنی پوری طاقت اور تمام تر وسائل کے ساتھ علانیہ طور پر تحریک کے داعیوں اور حامیوں کے مد مقابل رہتا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو تیسرا طبقہ پیدا ہوتا ہے وہ ان رو باصفت لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نہ اس تحریک کے دل سے حامی بنتے ہیں اور نہ کھلم کھلا مخالفت پر خود کو قادر پاتے ہیں اس طرح کے لوگ اپنی ذہنی و قلبی وابستگی اپنے سابقہ عقائد و نظریات ہی کے تئیں رکھتے ہیں لیکن جسمانی طور پر حامیان تحریک کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں، یہی صورت حال اسلام کو بھی پیش آئی پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے بعد جب مدنی زندگی کا آغاز ہوا اور اسی کے ساتھ دعوت اسلام کی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگی اور اہل اسلام کو بھی طاقت و شوکت میسر آنے لگی تو یہ تیسرا طبقہ پیدا ہوگیا۔ پہلے مکہ میں ایک طرف تو وہ خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے کامل صدق و اخلاص کے ساتھ دعوت اسلام کو قبول کیا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے فدا کار خادم بنے۔ یہ خوش نصیب تعداد میں بھی کم تھے اور مادی وسائل و ذرائع سے محروم بھی تھے، ان کے مقابلہ پر اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا، اس پر بس نہ کر کے دعوت اسلام کی بھر پور مخالفت پر کمر بستہ تھے، ان لوگوں کو طاقت و شوکت بھی حاصل تھی اور تمام تر مادی وسائل و ذرائع کی پشت پناہی بھی۔ چناچہ یہاں ان کو اسلام کی کھلم کھلا دشمنی سے کوئی امر مانع نہیں تھا اور اہل اسلام کی مخالفت سماجی طور پر کسی خطرہ یا نقصان کا باعث بھی نہیں تھی۔ لیکن اب مدینہ آنے کے بعد دعوت اسلام کا ماحول دوسرا ہوگا، تحریک کامیابی سے آگے بڑھتی رہی، متفقین اور ہمنواؤں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ طاقت و شوکت بھی بڑھنے لگی اور سماجی طور پر اہل اسلام کو غلبہ بھی ملنے لگا۔ لہٰذا اب اسلام کے مخالفین اور معاندین کو بھی عداوت کی شکل بدل دینی پڑی۔ انہوں نے یہ مستقل پالیسی بنالی کہ بظاہر تو اسلام کے نام لیوا بن جاؤ اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگو۔ مگر اندرونی طور پر مخالفین اسلام یعنی کافروں کے ہمنوا رہو اور خفیہ معاندانہ کاروائیوں کے ذریعہ دعوت اسلام کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہو، چناچہ یہی سے نفاق کی بنیاد قائم ہوئی اور اس طرح کے لوگوں کو اسلام میں منافق کہا گیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح کسی بھی تحریک کے لئے نفاق سب سے بڑا گھن ثابت ہوتا ہے اسی طرح اسلام کے حق میں یہ طبقہ منافقین سب سے زیادہ نقصان رساں ثابت ہوا، ابتداء میں تو ان منافقین کا مکروہ چہرہ مسلمانوں کے سامنے چھپا رہا، جب ان کی منافقانہ پالیسی اور عیارانہ کاروائیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچانا شروع کیا اور اسلام کے خلاف ان کی خفیہ نقل و حرکت کا علم ہونے لگا تو ان کی شخصیتیں سامنے آنے لگیں اور پھر تو اس طبقہ کی اتنی اہمیت محسوس کی گئی کہ اس کے نام پر مستقل ایک سورت المافقین نازل کی گئی، اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں جا بجا منافقوں سے خبردار کیا گیا اور ان کی ریشہ دوانیوں اور تباہ کاریوں سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا۔ نفاق کی قسمیں جس طرح ایمان اور کفر کی مختلف قسمیں اور صورتیں ہیں اسی طرح نفاق کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک تو اعتقادی نفاق ہے اور یہی حقیقی نفاق ہے یعنی بظاہر اللہ کی تو حید، رسالت، فرشتے اور حشر و نشر کے اعتقاد رکھنے کا دعوی کرنا مگر اندر ان تمام اعتقادی مسلمات کا پورا پورا انکار و انحراف مضمر ہونا۔ یہی وہ نفاق ہے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھا۔ اسی نفاق کو قرآن مجید نے کفر بھی کہا ہے اور اسی نفاق کے بارے میں یہ وعید آئی ہے کہ دوزخ میں منافقین کا ٹھکانا کافروں سے بھی نیچے ہوگا، پھر یہ ہوا کہ ان منافقین کے جو عادات و خصائل اور طور طریقے تھے ان پر بھی نفاق کا اطلاق کیا جانے لگا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جو انسان کی اخلاقی اور عملی زندگی کو عیب دار بنا دیتی ہیں جو اسلام کی تعلیمات، اعلیٰ انسانی اقدار اور امانت و دیانت کے صریح منافی ہونے کے سبب ایمان و اسلام سے ذرا بھی میل نہیں کھاتیں۔ چناچہ جب مسلمانوں کی دینی زندگی میں انحطاط کا دور آیا اور انہوں نے ان باتوں کو اختیار کرنا شروع کردیا جو منافقین اسلام کا خاصۃ تھیں تو ارباب اصطلاح نے نفاق کی ایک اور قسم متعین کی اور اس کا نام عملی نفاق رکھا۔ پس حدیث بالا میں جس چیز کے خلاف تنبیہ کرنا مقصود ہے اس سے یہی عملی نفاق مراد ہے۔ مطلب یہ کہ بات چیت میں دروغ گوئی اختیار کرنا، وعدہ کا پورا نہ کرنا اور امانتوں میں خیانت کرنا ان بری عادتوں میں سے ہیں جو ایک منافق میں تو پائی جاتی ہیں لیکن کسی مومن میں ان کا پایا جانا عجوبہ سے کم نہیں۔ لہٰذا اگر مسلمان دانستہ یا نا دانستہ طور پر ان میں سے کسی بری عادت کا شکار ہے تو اس کو فوراً اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ورنہ آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔
Top