صحيح البخاری - اجازت لینے کا بیان - حدیث نمبر 6687
حدیث نمبر: 7098
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ لِأُسَامَةَ :‏‏‏‏ أَلَا تُكَلِّمُ هَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ كَلَّمْتُهُ مَا دُونَ أَنْ أَفْتَحَ بَابًا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَفْتَحُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَنَا بِالَّذِي أَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ أَمِيرًا عَلَى رَجُلَيْنِ أَنْتَ خَيْرٌ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ فَيَطْحَنُ فِيهَا كَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَيْ فُلَانُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتَ كُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَفْعَلُهُ.
اس فتنے کا بیان جو دریا کی طرح موجزن ہوگا۔ اور ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے نقل کیا ہے کہ لوگ فتنوں کے وقت ان اشعار کو مثال کے طور پر پڑھنا بہتر سمجھتے تھے امرؤالقیس نے کہا ہے کہ (١) جنگ پہلے تو ایک کم سن لڑکی معلوم ہوتی ہے کہ ہر جاہل کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ دوڑتی ہے۔ (٢) یہاں تک کہ وہ مشتعل ہوجاتی ہے اور اس کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو وہ بغیر شوہر والی بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے (٣) سفید و سیاہ بال ہو کر اس کا رنگ برا معلوم ہونے لگتا ہے اور متغیر ہو کر سونگھنے اور بوسہ بازی کے لئے مکروہ ہوجاتی ہے۔
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان نے کہ میں نے ابو وائل سے سنا، انہوں نے کہا کہ اسامہ ؓ سے کہا گیا کہ آپ (عثمان بن عفان ؓ) سے گفتگو کیوں نہیں کرتے (کہ عام مسلمانوں کی شکایات کا خیال رکھیں) انہوں نے کہا کہ میں نے (خلوت میں) ان سے گفتگو کی ہے لیکن (فتنہ کے) دروازہ کو کھولے بغیر کہ اس طرح میں سب سے پہلے اس دروازہ کو کھولنے والا ہوں گا میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ کسی شخص سے جب وہ دو آدمیوں پر امیر بنادیا جائے یہ کہوں کہ تو سب سے بہتر ہے۔ جبکہ میں رسول اللہ سے سن چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو (قیامت کے دن) لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر وہ اس میں اس طرح چکی پیسے گا جیسے گدھا پیستا ہے۔ پھر دوزخ کے لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! کیا تم نیکیوں کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکا نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا کہ میں اچھی بات کے لیے کہتا تو ضرور تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور بری بات سے روکتا بھی تھا لیکن خود کرتا تھا۔
Top