Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (6621 - 6722)
Select Hadith
6621
6622
6623
6624
6625
6626
6627
6628
6629
6630
6631
6632
6633
6635
6636
6637
6638
6639
6640
6641
6642
6643
6644
6645
6646
6647
6648
6649
6650
6651
6652
6653
6654
6655
6656
6657
6658
6659
6661
6662
6663
6664
6665
6666
6667
6668
6669
6670
6671
6672
6673
6674
6675
6676
6678
6679
6680
6681
6682
6683
6684
6685
6686
6687
6688
6689
6690
6691
6692
6693
6694
6695
6696
6697
6698
6699
6700
6701
6702
6703
6704
6705
6706
6707
6708
6709
6710
6711
6712
6713
6714
6715
6716
6717
6718
6719
6720
6721
6722
مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 5431
وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج الدجال فيمكث أربعين لا أدري أربعين يوما أو شهرا أو عاما فيبعث الله عيسى ابن مريم كأنه عروة بن مسعود فيطلبه فيهلكه ثم يمكث في الناس سبع سنين ليس بين اثنين عداوة ثم يرسل الله ريحا باردة من قبل الشام فلا يبقى على وجه الأرض أحد في قلبه مثقال ذرة من خير أو إيمان إلا قبضته حتى لو أن أحدكم دخل في كبد جبل لدخلته عليه حتى تقبضه قال فيبقى شرار الناس في خفة الطير وأحلام السباع لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فيتمثل لهم الشيطان فيقول ألا تستجيبون ؟ فيقولون فما تأمرنا ؟ فيأمرهم بعبادة الأوثان وهم في ذلك دار رزقهم حسن عيشهم ثم ينفخ في الصور فلا يسمعه أحد إلا أصغى ليتا ورفع ليتا قال وأول من يسمعه رجل يلوط حوض إبله فيصعق ويصعق الناس ثم يرسل الله مطرا كأنه الطل فينبت منه أجساد الناس ثم ينفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون ثم يقال يا أيها الناس هلم إلى ربكم وقفوهم إنهم مسؤولون . فيقال أخرجوا بعث النار . فيقال من كم ؟ كم ؟ فيقال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين قال فذلك يوم يجعل الولدان شيبا وذلك يوم يكشف عن ساق . رواه مسلم .
قیامت سے پہلے کیا ہوگا ؟
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم، اس موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی مراد کیا تھی آیا چالیس دن یا چالیس مہنیے اور یا چالیس سال پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجے گا جو گویا عروہ ابن مسعود کی شکل و صورت کے ہوں گے ( یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) شکل و صورت میں عروہ ابن مسعود کے مشابہ ہوں گے) وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو مار ڈالیں گے، اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا والوں میں سات سال تک رہیں گے اور اس عرصہ میں دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ( جو اہل ایمان کو موت کے آغوش میں پہنچادے گی چناچہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں رائی برار بھی نیکی یا ایمان میں سے کچھ ہوا اور وہ ہوا اس کی روح قبض نہ کرے یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ( بالفرض) پہاڑ کے اندر بھی چلا گیا ہوگا تو وہ ہوا پہاڑ میں داخل ہو کر اس شخص کا پیچھا کریگی اور اس کی روح قبض کر کے چھوڑے گی آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ( روئے زمین پر) صرف بدکار و شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں کے مانند سبک رو اور تیز رفتار اور درندوں کی مانند مضبوط وسخت ہوں گے وہ نہ تو نیکی و بھلائی سے واقف ہوں گے اور نہ برائی و بدکاری سے اجتناب کریں گے پھر شیطان ( کسی معزز وقابل تکریم انسان کی شکل و صورت اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ ( تم لوگ جس طرح فسق وفجور میں مبتلا ہو اس پر) کیا تم کو شرم وحیا نہیں آتی ہے گویا یہ شیطان کا مکرو تلبیس ہوگا کہ وہ اس حیلے سے ان کو بت پرستی کی طرف لائے گا) وہ لوگ شیطان سے کہیں گے تم بتاؤ ہم کیا کریں ( یعنی ہمارے بارے میں جو تمہارا مقصود ہے اس کو ظاہر کرو تاکہ ہم اس کے مطابق عمل کریں) پس شیطان ان کو بت پوجنے کا حکم دے گا یعنی شیطان ان کو اس فریب میں مبتلا کرے گا کہ تم لوگ وسیلہ اختیار کرنے کے طور پر بتوں کو پوجنے لگو تاکہ اللہ تم سے راضی ہو چناچہ کفار یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بتوں کو محض اللہ کو خوش کرنے کے لئے پوجتے ہیں اور قرآن نے ان کی اس خام خیالی کی خبر ان الفاظ میں دی ہے ما نعبد ہم الا لیقربونا الی اللہ زلفا ویقولون ہولاء شفعاؤ نا عند اللہ۔ بہر حال وہ لوگ شیطان کے کہنے کے مطابق بت پرستی کرنے لگیں گے اور ان کے اعمال و اخلاق انتہائی پست ہوجائیں گے لیکن ان کے ان برے اعمال کے باوجود ان کے رزق میں فراوانی اور کثرت ہوگی اور وہ عیش و عشرت کی زندگی گزراتے ہوں گے پھر قیامت قائم کرنے کے لئے) صور پھونکا جائے گا اور جو بھی شخص اس کی آواز سنے گا وہ شخص اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکائے گا اور دوسری جانب سے بلند کرے گا اس صور کی آواز کو سب سے پہلے سننے والا وہ شخص ہوگا جو اپنے اونٹ ( کو پانی پلانے) کے حوض کو لیپ پوت رہا ہوگا اور وہ اسی حالت میں مرجائے گا۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی طرح اپنے اپنے کام میں مشغولیت کے دوران ہی مرجائیں گے ( یعنی کسی کو بھی اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ جس کام میں مشغول ہے اس سے فارغ ہی ہوجائے) اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جو شبنم کی طرح ہوگی ( یعنی ہلکی بارش جس کو پھوار بھی کہا جاسکتا ہے اور اس بارش کے ذریعہ لوگوں کے بدن اگ آئیں گے ( جو قبروں میں گل چکے ہوں گے) پھر چالیس برس کے بعد) دوسرا صور پھونکا جائے گا جس کو سن کر تمام لوگ ( جو اپنی قبروں اور زمین کے نیچے سے زندہ ہو کر نکلیں گے) یکبارگی اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھیں گے پھر ان سب سے کہا جائے گا کہ لوگو! اپنے پروردگار کی طرف آو اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ ان سب کو روکے رکھو، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان سے حساب لیا جائے گا پھر ( پروردگار کی طرف سے) فرشتوں کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا جائے گا کہ کتنے لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو الگ کیا جائے؟ یعنی جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجا جانا ہے ان کا تناسب کیا ہے اور ان کو کتنے لوگوں میں سے کس مقدار کے حساب سے الگ کیا جائے فرشتوں سے کہا جائے گا ہر ہزار شخص میں سے نو سو نناوے لوگوں کو دوزخ میں بھیجنے کے لئے الگ کرلو یہ کہہ کر آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا۔ (مسلم ) اور حضرت معاویہ ؓ کی روایت لا تنقطع الہجرۃ۔ توبہ کے باب میں نقل کی چکی ہے۔
تشریح
مجھے نہیں معلوم اسی موقع پر چالیس سے آنحضرت ﷺ کی کیا مراد تھی الخ) کے سلسلہ میں مختصر طور پر اتنا بتادینا کافی ہے کہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، دجال کی ٹھہرنے کی مدت بعض روایتوں میں چالیس سال اور بعض میں چالیس دن یا چالیس رات آئی ہے اور اسی موقع پر یہ بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان روایتوں میں مطابقت کی صورت کیا ہے۔ دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی و عداوت نہیں ہوگی کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا وہ زمانہ باہمی انس و رواداری، اخوت و محبت اور یگانگت ویک جہتی سے بھر پور ہوگا۔ اس وقت تمام لوگ ایمان و اخلاق کی کامل صفات کے حامل ہوں گے اور پورا معاضرہ اس طرح اعلی انسانی و اخلاقی قدروں پر استوار ہوگا کہ کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوگا۔ کوئی کسی کے درپے آزار نہیں ہوگا۔ کسی کے دل میں کوئی بغض وکینہ اور حسد نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے دوست ورفیق اور ایک دو سے کے ہمدرد اور بہی خواہ ہوں گے! واضح رہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھہرنے کی مدت جو سات سال بیان کی گئی ہے وہ دجال کو قتل کرنے کے بعد اس دنیا میں ان کے ٹھہرنے کی مدت ہے ورنہ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس دنیا میں ان کی کل مدت حیات پینتالیس سال ہوگی۔ جو پرندوں کی مانند سبک رو اور تیز رفتار الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ برائی و بدکاری کے کاموں اور جنسی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح سبک رو اور تیز رفتار ہوں گے جیسے پرندے ہوتے ہیں اور ظلم وتشدد کرنے، فتنہ و فساد پھیلانے اور لوگوں کے جان ومال کو ہلاک و برباد کرنے میں اس طرح شقی القلب اور سخت مزاج ہوں گے جس طرح درندے ہوتے ہیں! پس اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ علم و دانائی حلم ومروت اور دوسرے انسانی و اخلاقی اوصاف سے بالکل خالی ہوں گے بلکہ ان کے دل و دماغ اور مزاج و طبیعت پر ظلم وشقاوت، دست درازی، وحشت ودرندگی اور ہلاکت خیزی کا غلبہ ہوگا۔ وہ اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکالے گا آلخ کا مطلب یہ ہے کہ اس صور کی آواز اتنی زیادہ خوفناک اور ڈراونی ہوگی کہ اس کی دہشت سے لوگوں کے دل پھٹ جائیں گے اور جسمانی قوت وہمت معطل و بیکار ہو کر رہ جائے گی جس کا اثر گردن پر پڑے گا اور وہ ڈھلک جائے گی جیسا کہ خوف و دہشت کے وقت ہوتا ہے کہ سر اس طرح ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے کہ گردن کی ایک جانب تو جھک جاتی ہے اور اس کے مقابل کی دوسری جانب اوپر اٹھ جاتی ہے۔ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الخ سے معلوم ہوا کہ ایک ہزار لوگوے میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ گویا جنت میں جانے والوں کا تناسب فی ہزار ایک شخص ہوگا! نیز زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں سے مراد کافر ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے چناچہ آگے باب الحشر میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت آرہی ہے اس میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ دوزخیوں کی یہ جماعت یاجوج وماجوج کے لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا یہ جملہ دراصل قیامت کے دن کی درازی وطوالت یا اس دن کی شدت وہولنا کی سے کنایہ ہے جیسا کہ مصائب وآلام اور غم وشدائد کے زمانہ میں بوڑھا پا بہت جلد آجاتا ہے۔ اسی طرح یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا بہی سخت ترین خوف وہولنا کی اور شدت و محبت سے کنایہ ہے واضح رہے کہ کشف ساق ( جس کا ترجمہ امر عظیم کو ظاہر کیا جانا) کیا گیا ہے کے معنی اہل عرب میں یہی مشہور ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی بہت سخت مشکل و پریشانی آتی ہے اور اس پریشانی سے نجات پانے کے لئے اس کو بہت زیادہ کوشش اور سعی کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنی پنڈلی کے اوپر سے کرتہ کا دامن وغیرہ اٹھالیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پنڈلی کھل جاتی ہے اس اعتبار سے کشف ساق اہل عرب کا ایک محاورہ بنا ہوا ہے جو کسی کام کی اہمیت ونزاکت اور اس کام کے سلسلے میں پیش آنے والی صعوبتوں اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے! یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہے کہ یوم یکشف عن ساق۔ کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور حدیث میں مذکورہ جملہ کی صورت میں قرآن کے انھی الفاظ کو پیش کیا گیا ہے چناچہ اس کی تفسیر کے سلسلہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن اکثرحضرات کے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تاویل یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی۔
Top