Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4525 - 4805)
Select Hadith
4525
4526
4527
4528
4529
4530
4531
4532
4533
4534
4535
4536
4537
4538
4539
4540
4541
4542
4543
4544
4545
4546
4547
4548
4549
4550
4551
4552
4553
4554
4555
4556
4557
4558
4559
4560
4561
4562
4563
4564
4565
4566
4567
4568
4569
4570
4571
4572
4573
4574
4575
4576
4577
4578
4579
4580
4581
4582
4583
4584
4585
4586
4587
4588
4589
4590
4591
4592
4593
4594
4595
4596
4597
4598
4599
4600
4601
4602
4603
4604
4605
4606
4607
4608
4609
4610
4611
4612
4613
4614
4615
4616
4617
4618
4619
4620
4621
4622
4623
4624
4625
4626
4627
4628
4629
4630
4631
4632
4633
4634
4635
4636
4637
4638
4639
4640
4641
4642
4643
4644
4645
4646
4647
4648
4649
4650
4651
4652
4653
4654
4655
4656
4657
4658
4659
4660
4661
4662
4663
4664
4665
4666
4667
4668
4669
4670
4671
4672
4673
4674
4675
4676
4677
4678
4679
4680
4681
4682
4683
4684
4685
4686
4687
4688
4689
4690
4691
4692
4693
4694
4695
4696
4697
4698
4699
4700
4701
4702
4703
4704
4705
4706
4707
4708
4709
4710
4711
4712
4713
4714
4715
4716
4717
4718
4719
4720
4721
4722
4723
4724
4725
4726
4727
4728
4729
4730
4731
4732
4733
4734
4735
4736
4737
4738
4739
4740
4741
4742
4743
4744
4745
4746
4747
4748
4749
4750
4751
4752
4753
4754
4755
4756
4757
4758
4759
4760
4761
4762
4763
4764
4765
4766
4767
4768
4769
4770
4771
4772
4773
4774
4775
4776
4777
4778
4779
4780
4781
4782
4783
4784
4785
4786
4787
4788
4789
4790
4791
4792
4793
4794
4795
4796
4797
4798
4799
4800
4801
4802
4803
4804
4805
مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 5389
وعن فاطمة بنت قيس قالت سمعت منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قضى صلاته جلس على المنبر وهو يضحك فقال ليلزم كل إنسان مصلاه . ثم قال هل تدرون لم جمعتكم ؟ . قالوا الله ورسوله أعلم . قال إني والله ما جمعتكم لرغبة ولا لرهبة ولكن جمعتكم لأن تميما الداري كان رجلا نصرانيا فجاء فبايع وأسلم وحدثني حديثا وافق الذي كنت أحدثكم به عن المسيح الدجال حدثني أنه ركب في سفينة بحرية مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام فلعب بهم الموج شهرا في البحر فأرفؤوا إلى جزيرة حين تغرب الشمس فجلسوا في أقرب سفينة فدخلوا الجزيرة فلقيتهم دابة أهلب كثير الشعر لا يدرون ما قبله من دبره من كثرة الشعر قالوا ويلك ما أنت ؟ قالت أنا الجساسة قالوا وما الجساسة ؟ قالت أيها القوم انطلقوا إلى هذا الرجل في الدير فإنه إلى خبركم بالأشواق قال لما سمت لنا رجلا فرقنا منها أن تكون شيطانة قال فانطلقنا سراعا حتى دخلنا الدير فإذا فيه أعظم إنسان ما رأيناه قط خلقا وأشده وثاقا مجموعة يده إلى عنقه ما بين ركبتيه إلى كعبيه بالحديد . قلنا ويلك ما أنت ؟ قال قد قدرتم على خبري فأخبروني ما أنتم ؟ قالوا نحن أناس من العرب ركبنا في سفينة بحرية فلعب بنا البحر شهرا فدخلنا الجزيرة فلقيتنا دابة أهلب فقالت أنا الجساسة اعمدوا إلى هذا في الدير فأقبلنا إليك سراعا وفزعنا منها ولم نأمن أن تكون شيطانة فقال أخبروني عن نخل بيسان قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال أسألكم عن نخلها هل تثمر ؟ قلنا نعم . قال أما إنها توشك أن لا تثمر . قال أخبروني عن بحيرة الطبرية قلنا عن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل فيها ماء ؟ قلنا هي كثيرة الماء . قال أما إن ماءها يوشك أن يذهب . قال أخبروني عن عين زغر . قالوا وعن أي شأنها تستخبر ؟ قال هل في العين ماء ؟ وهل يزرع أهلها بماء العين ؟ قلنا له نعم هي كثيرة الماء وأهله يزرعون من مائها . قال أخبروني عن نبي الأميين ما فعل ؟ قلنا قد خرج من مكة ونزل يثرب . قال أقاتله العرب ؟ قلنا نعم . قال كيف صنع بهم ؟ فأخبرناه أنه قد ظهر على من يليه من العرب وأطاعوه . قال لهم قد كان ذلك ؟ قلنا نعم . قال أما إن ذلك خير لهم أن يطيعوه وإني مخبركم عني إني أنا المسيح الدجال وإني يوشك أن يؤذن لي في الخروج فأخرج فأسير في الأرض فلا أدع قرية إلا هبطتها في أربعين ليلة غير مكة وطيبة هما محرمتان علي كلتاهما كلما أردت أن أدخل واحدة أو واحدا منهما استقبلني ملك بيده السيف صلتا يصدني عنها وإن على كل نقب منها ملائكة يحرسونها . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعن بمخصرته في المنبر هذه طيبة هذه طيبة هذه طيبة يعني المدينة ألا هل كنت حدثتكم ؟ فقال الناس نعم فإنه أعجبني حديث تميم أنه وافق الذي كنت أحدثكم عنه وعن المدينة ومكة . ألا إنه في بحر الشأم أو بحر اليمن لا بل من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو من قبل المشرق ماهو وأومأ بيده إلى المشرق . رواه مسلم . ( متفق عليه )
دجال کا ذکر
اور حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ ( ایک دن) میں نے رسول کریم ﷺ کے مؤذن کی یہ آواز الصلوۃ جامعۃ نماز جمع کرنے والی ہے) سن کر مسجد پہنچی اور پھر میں نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد منبر پر تشریف فرما ہوئے اس وقت ( حسب عادت آپ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم میں نے تمہیں نہ تو کسی مرغوب چیز کے لئے جمع کیا ہے اور نہ کسی دہشت ناک کے لئے یعنی تمہیں یہاں روکنے کا مقصد نہ تو تمہیں کوئی چیز دینا ہے اور نہ کسی دشمن وغیرہ سے ڈرانا ہے بلکہ میں نے تمہیں اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری، جو ایک نصرانی (عیسائی) شخص تھا، آیا اور مسلمان ہوا اور اس نے مجھ کو ایک ایسا واقعہ سنایا جو مسیح دجال کے بارے میں ان باتوں کے مطابق ہے جو میں تمہیں بتایا کرتا ہوں چناچہ میں نے مناسب جانا کہ تمیم داری کا وہ واقعہ تمہیں بھی سنا دوں تاکہ دجال کے بارے میں تمہارا یقین اور زیادہ پختہ ہوجائے اور میری بتائی ہوئی باتیں مشاہدہ کے قرین ہوجائیں تو سنو مجھ سے تمیم داری نے بیان کیا کہ وہ ایک ( دن) قبیلہ جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہو کر روانہ ہوا تو پانی کی موج ایک مہینہ تک کشتی کے سواروں سے کھیلتی رہی ( یعنی کشتی سمندر کی ایک ایسی موج میں گھر گئی جو مسلسل ایک مہینہ تک اس کو ادھر ادھر لئے پھری اور اس نے سواروں کو منزل مقصود تک نہ پہنچنے دیا) یہاں تک کہ اس موج نے کشتی کو ( ایک دن) غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرہ کے قریب پہنچایا دیا اور سارے سوار ان چھوٹی کشتیوں میں کہ جو بڑی کشتی کے ساتھ تھیں بیٹھ کر اس جزیرہ میں پہنچ گئے، وہاں انہیں ایک ایسا چوپایہ ملا جو بالوں والا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا پیچھا معلوم نہیں ہوتا تھا یعنی اس چوپایہ کے جسم پر اتنے زیادہ بال تھے کہ پورا جسم چھپ کر رہ گیا تھا اور ان کی کثرت کی وجہ سے لوگوں کو اس کا اگلا حصہ کونسا ہے اور پچھلا کونسا) لوگوں نے ( اس کو دیکھ کر بڑی حیرت سے) کہا کہ تجھ پر افسوس، تو کون ہے اور کیا ہے؟ یعنی آخر تیری اصل و ماہیت کیا ہے تو کوئی جن ہے یا انسان ہے؟ ) اس چوپابہ نے جواب دیا کہ میں جاسوس اور خبر رساں ہوں تم لوگ میرے ساتھ اس شخص کے پاس چلو جو دیر میں ہے کیونکہ اسے تمہاری خبریں سننے کا بہت شوق ہے تمیم داری نے بیان کیا کہ جب اس چوپایہ نے ہم سے ایک شخص کا ذکر کیا ( اور ہمیں اس کے پاس چلنے کو کہا) تو ہمیں بڑا ڈر لگا کر وہ شخص کہیں انسان کی شکل و صورت میں شیطان نہ ہو، بہر حال ہم تیزی کے ساتھ چل پڑے اور جب دیر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک سب سے بڑی ڈیل ڈول والا اور نہایت خوفناک آدمی موجود ہے، اسی جیسی شکل و صورت کا آدمی ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، وہ نہایت مضبوط اس طرح بندھا ہوا تھا کہ اس کے ہاتھ گردن تک اور گھٹنوں کے درمیان سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیر سے جکڑے ہوئے تھے ہم نے (اس کو دیکھ کر بڑی حیرت کے ساتھ) کہا کہ تجھ پر افسوس ہے، تو کون ہے اور کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ جب تم نے مجھ کو پالیا اور معلوم کر ہی لیا ہے ( اور یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہو تو اب میں تم سے اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا اور سب کچھ بتادوں گا لیکن پہلے) مجھے اپنے بارے میں بتاؤ ( اور جو کچھ تم سے پوچھوں اس کا جواب دو ) کہ تم کون ہو ( اور کہاں سے آئے ہو؟ ) ہمارے لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم عرب کے لوگ ہیں بحری کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ ( اور اپنی منزل مقصود کی طرف جارہے تھے) کہ سمندری طوفان نے ہمیں ایک مہینہ تک گھیرے رکھا ( اور ہماری کشتی کو یہاں لا چھوڑا ہم اس جزیرہ پر اتر گئے، یہاں ہمیں ایک بالوں والا چوپایہ ملا اور اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں تم لوگ اس شخص کے پاس جاؤ جو دیر یعنی بڑے محل میں موجود ہے چناچہ ہم بڑی تیزی کے ساتھ تیرے پاس چلے آئے اس نے کہا کہ اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان میں کھجوروں کے دو درخت ہیں ان پر پھل آتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں پھل آتے ہیں! اس نے کہا کہ جان لو جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہے جب بیسان کے کھجور کے درختوں پر پھل نہیں آئیں گے (گویا اس نے اس طرف اشارہ کیا کہ قیامت جلد ہی آنے والی ہے) اس نے کہا کہ اب مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں بتاؤ کہ آیا اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا کہ اس میں تو بہت پانی ہے اس نے کہا یقینا عنقریب اس کا پانی ختم ہوجائے گا پھر اس نے پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رغر کے چشمہ میں پانی ہے یا نہیں اور وہاں کے لوگ اس چشمہ کے پانی کے ذر یعہ کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں اس چشمہ میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اسی پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اس کے بعد اس نے کہا کہ اب مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی ﷺ کے بارے میں بتاؤ اس نے کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ انہوں نے مکہ کو چھوڑ دیا ہے اور اب یثرب ( یعنی مدینہ) کو ہجرت کر گئے ہیں اس نے پوچھا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں! پھر اس نے پوچھا کہ انہوں نے اہل عرب سے کیا معاملہ کیا؟ ہم نے اس کو بتایا کہ وہ نبی ﷺ ان عربوں پر غالب آگئے ہیں جو ان کے قریب ہیں اور انہوں نے ان کی اطاعت اختیار کرلی ہے اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہے کہ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں، میں درحقیت مسیح یعنی دجال ہوں، وہ زمانہ جلدہی آنے والا ہے جب مجھ کو نکلنے کی اجازت مل جائے گی، اس وقت میں نکلوں گا اور چالیس دنوں تک زمین پر پھروں گا یہاں تک کوئی آبادی ایسی نہیں چھوڑوں گا جس میں داخل نہیں ہوں گا، سوائے مکہ اور طیبہ یعنی مدینہ اور مکہ کے یہ دونوں شہر مجھ پر حرام قرار دیئے گئے ہیں یعنی ان دونوں میں داخل ہونا چاہوں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آجائے گا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی وہ فرشتہ مجھ کو اس شہر میں داخل ہونے سے روک دے گا، حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شہر کے تمام راستوں پر فرشتے مامور ہیں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (تمیم داری کا یہ پورا واقعہ بیان کرنے کے بعد صحابہ پر اپنی یہ خوشی ظاہر کرنے کے لئے کہ دیکھو دجال کے بارے میں تمہیں جو کچھ بتایا کرتا تھا اس کی پوری پوری تصدیق و تائید اس واقعہ سے ہوجاتی ہے، نیز آپ ﷺ نے تمام شہروں پر مدینہ کی فضیلت و بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے جوش میں) اپنا عصاء مبارک منبر پر مار کر ( تین مرتبہ) یہ فرمایا کہ یہ ہے طیبہ، یہ ہے طبیہ یعنی مدینہ ( پھر فرمایا) یاد رکھو، کیا میں تمہیں یہی بات نہیں بتایا کرتا تھا (جو دجال کے بارے میں اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے؟ ) صحابہ نے کہا کہ ہاں ( آپ ﷺ ہمیں اسی طرح کی بات بتایا کرتے تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا دجال شام کے سمندر میں ہے یا یمن کے سمندر میں، نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا، یہ فرما کر آپ ﷺ نے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا۔ (مسلم )
تشریح
الصلوۃ جامعۃ کا جملہ لوگوں کو متوجہ کرنے اور نماز کے لئے بلانے کے واسطے ہے تاکہ لوگ یہ سن کر ایک جگہ پہنچ جائیں اور جمع ہوجائیں جیسا کہ زمانہ نبوی ﷺ میں کسوف اور خسوف کی نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے اس جملہ کے ذریعہ پکارا جاتا تھا! سفینۃ کو بحریۃ کی اضافت کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد اس بات سے احتراز کرنا ہے کہ ذہن خشکی کی کشتی یعنی اونٹ کی طرف منتقل نہ ہو کیونکہ اونٹ کو سفینۃ البر ( خشکی کی کشتی) کہا جاتا ہے، ویسے بعض حضرات نے کہا ہے سفینہ بریہ سے مراد بڑی سمندری کشتی ہے جس کو پانی کا جہاز بھی کہا جاسکتا ہے۔ لفظ اقرب اصل میں قا رب کی جمع ہے اور قا رب اس ڈونگی یعنی چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں جو بڑی سمندری کشتی ( پانی کے جہاز) میں رکھی رہتی ہے اور ساحل پر آنے جانے اور ان کاموں میں استعمال ہوتی ہے جو بڑی کشتی یا جہاز کے ذریعہ انجام نہیں پاسکتے۔ اس عجیب الخلقت جانورنے اپنا نام جساستہ یعنی جاسوسی کرنے والا اس اعتبار سے بتایا کہ وہ دجال کو خبریں اور معلومات پہنچایا کرتا تھا، واضح رہے کہ قرآن شریف میں جس دابۃ الارض کا ذکر آیا ہے وہ یہی جانور ہے۔ دیر اصل میں عیسائیوں کی عبادت گاہ یعنی گرجا کو کہتے ہیں ویسے لغت کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ دیر راہبوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں، بہر حال یہاں حدیث میں دیر سے مراد وہ بڑی عمارت ہے جس میں دجال تھا۔ بیسان ملک شام میں ایک بستی کا نام ہے یا یمامہ میں ایک جگہ کا نام ہے، لیکن مشرق الانور میں لکھا ہے کہ حدیث جسار میں ( جو یہاں نقل ہوئی ہے) مذکور بیسان حجاز کے ایک شہر کا نام ہے اور دوسرا بیسان شام کے علاقہ میں واقع ہے۔ جیسا کہ پیچھے بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے بحیرہ اصل میں بحر کی تصغیر ہے یعنی چھوٹا سمندر، جس کو جھیل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے اور طبریہ اردن کے ایک قصبہ کا نام سے، فن حدیث کے مشہور امام طبرانی اس قصبہ کے رہنے والے تھے۔ زغر ایک شہر کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے، اس علاقہ میں رویئدگی بہت کم ہوتی ہے۔ مجھے امیوں یعنی اہل عرب کے نبی کے بارے میں بتاؤ میں دجال نے حضور ﷺ کی نسبت صرف اہل عرب کی طرف ازراہ طنز کہ وہ خاص طور پر اہل عرب کے نبی ہیں یا یہ کہ جملہ تعزیمی پیرا یہ بیان ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ اس ملعون دجال کی اس باطل خیال کی ترجمانی مقصود تھی کہ آپ ﷺ نادانوں اور جاہلوں کے نبی ہیں۔ ان لوگوں کا ان کی اطاعت کرنا ہی ان کے لئے دجال کی زبان سے اس بات کا نکلنا گویا اس کی طرف سے حضور ﷺ کی عظمت و فضیلت کا اقرار تھا۔ گویہ اقرار اضطرار بہی تھا اور اس کے سبب سے بھی تھا کہ اس وقت کفر کے اظہار اور دین سے انکار کی کوئی غرض بھی اس کے سامنے نہیں تھی، لہٰذا اس نے اپنے کفر وعناد کو پوشیدہ رکھنا ہی مناسب سمجھا، یا یہ بہی کہا جاسکتا ہے کہ اس جملہ میں بہتری سے اس کی مراد دنیاوی بھلائی و بہتر اور امن و سلامتی ہو۔ لا بل من قبل المشرق ماہو ( نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا) میں حرف ما، نفی کے لئے نہیں ہے بلکہ زائد ہے! اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت آنے کا وقت چونکہ اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ قیامت کی علامتوں اور نشانیوں کے ظاہر ہونے کے زمانوں اور اوقات کو بھی متعین نہیں فرمایا اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی متعین طور پر وہ جگہ نہیں بتائی جہاں دجال مقید ہے، صرف ترد و ابہام کے طور پر مذکورہ تین مقامات کی طرف اشارہ فرمایا البتہ آخری مقام کو ظن غالب کے ذریعہ ظاہر فرمایا لیکن اس کو بھی متعین نہیں کیا سوائے اس کے کہ کسی خاص جگہ و علاقہ کے تعین کے بغیر اس سمت کی طرف اشارہ فرما کر چھوڑ دیا۔ پس مذکورہ جملہ سے پہلے دو احتمال کی نفی اور تیسرے احتمال کا جو اثبات ہوتا ہے اس کے یہی معنی ہیں! ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے پہلی دو جگہوں کا ذکر فرما کر پہر ان کی جو نفی فرمائی تو اس کا سبب یہ تھا کہ دجال کا قید خانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہوگا! اور تورپشتی نے بلکہ وہ مشرق کی جانب سے نکلے گا کی وضاحت میں کہا ہے کہ احتمال ہے کہ یہ جملہ خبر دینے کے طور پر ہو، یعنی دجال مشرق کی جانب سے نکلے گا نیز اشرف نے کہا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ دجال کے قید خانے کی جگہ کی تعین میں شک رکھتے تھے، آپ ﷺ کے گمان میں تھا کہ وہ ان جگہوں میں سے کسی نہ کسی جگہ مقید ہے، چناچہ جب آپ ﷺ نے اپنے اس شک کی بنا پر جب شام کے سمندر اور یمن کے سمندر کا ذکر کیا تو اسی وقت وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو یقین کے ساتھ معلوم ہوگیا یا آپ ﷺ کو ظن غالب ہوا کہ اس کا قید خانہ مشرق میں کسی جگہ واقع ہے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے پہلی دونوں جگہوں کی نفی فرما دی اور ان سے اعراض کرکے تیسری جگہ یعنی مشرق کا اثبات فرمایا۔
Top