Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4525 - 4805)
Select Hadith
4525
4526
4527
4528
4529
4530
4531
4532
4533
4534
4535
4536
4537
4538
4539
4540
4541
4542
4543
4544
4545
4546
4547
4548
4549
4550
4551
4552
4553
4554
4555
4556
4557
4558
4559
4560
4561
4562
4563
4564
4565
4566
4567
4568
4569
4570
4571
4572
4573
4574
4575
4576
4577
4578
4579
4580
4581
4582
4583
4584
4585
4586
4587
4588
4589
4590
4591
4592
4593
4594
4595
4596
4597
4598
4599
4600
4601
4602
4603
4604
4605
4606
4607
4608
4609
4610
4611
4612
4613
4614
4615
4616
4617
4618
4619
4620
4621
4622
4623
4624
4625
4626
4627
4628
4629
4630
4631
4632
4633
4634
4635
4636
4637
4638
4639
4640
4641
4642
4643
4644
4645
4646
4647
4648
4649
4650
4651
4652
4653
4654
4655
4656
4657
4658
4659
4660
4661
4662
4663
4664
4665
4666
4667
4668
4669
4670
4671
4672
4673
4674
4675
4676
4677
4678
4679
4680
4681
4682
4683
4684
4685
4686
4687
4688
4689
4690
4691
4692
4693
4694
4695
4696
4697
4698
4699
4700
4701
4702
4703
4704
4705
4706
4707
4708
4709
4710
4711
4712
4713
4714
4715
4716
4717
4718
4719
4720
4721
4722
4723
4724
4725
4726
4727
4728
4729
4730
4731
4732
4733
4734
4735
4736
4737
4738
4739
4740
4741
4742
4743
4744
4745
4746
4747
4748
4749
4750
4751
4752
4753
4754
4755
4756
4757
4758
4759
4760
4761
4762
4763
4764
4765
4766
4767
4768
4769
4770
4771
4772
4773
4774
4775
4776
4777
4778
4779
4780
4781
4782
4783
4784
4785
4786
4787
4788
4789
4790
4791
4792
4793
4794
4795
4796
4797
4798
4799
4800
4801
4802
4803
4804
4805
مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 5355
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اتخذ الفيء دولا والأمانة مغنما والزكاة مغرما وتعلم لغير الدين وأطاع الرجل امرأته وعق أمه وأدنى صديقه وأقصى أباه وظهرت الأصوات في المساجد وساد القبيلة فاسقهم وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافه شره وظهرت القينات والمعازف وشربت الخمور ولعن آخر هذه الأمة أولها فارتقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا وآيات تتابع كنظام قطع سلكه فتتابع . رواه الترمذي .
قیامت کی علامتیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب مالم غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غر ض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے اور جب قوم و جماعت کی سرداری، اس قوم و جماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم و جماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم و جماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور ساز و باجوں کا دور دورہ ہوجائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلہ کا، زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ و تبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے ( مثلا موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں۔ (ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہا ہے، لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طور پر ان کا دور دورہ ہوجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو، اس معاشرہ پر نازل ہونے والا اور دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب تر ہوگیا ہے۔ دول اصل میں دولۃ یا دولۃ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی انقلاب زمانہ کے ہیں اور ہر اس چیز کو بھی دولت کہتے ہیں جو کبھی کسی کے لئے ہو اور کبھی کسی کے لئے اسی وجہ سے اس لفظ کا مال و زر اور حلیہ و اقتدار پر ہوتا ہے! نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ لفظ دولۃ (دال کے پیش کے ساتھ) تو اس چیز کا اسم ہے جو از قسم مال کسی شئ کو حاصل کرے یعنی مال غنیمت اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی دولۃ کے معنی ہیں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹنا یعنی سختی و پریشانی اور تنگدستی کی حالت کا ختم ہوجانا اور اطمینان و راحت اور خوشحالی کا آجانا بہر حال مال غنیمت کو دولت قرار دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کے ذریعہ دشمنوں سے جو مال حاصل ہوتا ہے اور جس کو مال غنیمت کہا جاتا ہے وہ شرعی طور پر تمام غازیوں اور مجاہدوں کا مشترک حق ہے اور اس مال کو ان تمام حقداروں پر، خواہ وہ کسی بھی حیثیت وحالت کے ہوں، تقیسم کرنا واجب ہے، لیکن اگر اسلامی لشکر و سلطنت کے اہل طاقت و ثروت اور اونچے عہدے دار اس مال غنیمت کو شرع حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کے بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کر کے بیٹھ جائیں اور محتاج و ضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال کو غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کو تاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گذرنے لگے کہ گویا ان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہا ہے اور جیسے کوئی شخص تاوان اور جرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اور بوجھ محسوس کرتا ہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھائے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین و شریعت پر عمل اور اخلاق و کردار کی اصلاح و تہذیب انسانیت اور سماج کی فلاح و بہبود اور اللہ و رسول کا قرب و خوشنودی حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس گے ذریعہ دنیا کی عزت، مال و دولت، جاہ منصب اور ایوان اقتدار میں تقرب حاصل کرنا مقصود ہو۔ مرد کا بیوی کی اطاعت کرنا یہ ہے کہ خاوند، زن مرید ہوجائے اور اس طرح بیوی کا حکم مانے اور اس کی ہر ضرورت پوری کرنے لگے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے حکم و ہدایت کی صریح خلاف ورزی ہو۔ ماں کی نافرمانی کرنے سے مراد یہ ہے کہ ماں کی اطاعت و فرما نبرداری کا جو حق ہے اس سے لاپرواہ ہوجائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کی نافرمانی کر کے اس کا دل دکھائے واضح رہے کہ یہاں صرف ماں کی تخصیص اس اعتبار سے ہے کہ اولاد کے لئے چونکہ باپ کی بہ نسبت ماں زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے اس لئے وہ اولاد پر باپ سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت باپ کی خدمت میں حاضر رہنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور اس کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ مجلس بازی کرنے، ان کے ساتھ گپ شپ اور سیر و تفریح کرنے میں صرف کرے اور اپنے معمولات و حرکات سے ایسا ظاہر کرے کہ اس کو باپ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ تعلق وموانست ہے۔ مسجد میں شور و غل کرنے سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں زور زور سے باتیں کی جائیں، چیخ و پکار کے ذریعہ مسجد کے سکون میں خلل ڈالا جائے اور اس کے ادب و احترام سے لاپرواہی برتی جائے! واضح رہے کہ بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ مسجد میں آواز کو بلند کرنا حرام ہے، خواہ اس کا تعلق ذکر اللہ سے کیوں نہ ہو۔ کسی قوم و جماعت کا سردار اس قوم کے فاسق ہونے۔ سے مراد یہ ہے کہ قیادت وسیادت اگر ایسے لوگوں کے سپرد ہونے لگے جو بد کردار، بدقماش اور بےایمان ہو تو یہ بات پوری قوم کے لئے تباہی کی علامت ہوگی! واضح رہے کہ قوم، جماعت کے حکم میں شہر اور گاؤں اور محلہ بھی شامل ہیں! اسی طرح اگر کسی قوم و جماعت کے زعما ان لوگوں کو قرار دیا جانے لگے جو اپنی قوم و جماعت کے کمینہ، بےکردار اور رذیل ترین ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس قوم و جماعت کی تباہی کے دن آگئے ہیں۔ آدمی کی تعظیم، اس کے فتنہ وشر کے ڈر سے کی جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی تعظیم و احترام کا معیار اس کی ذاتی فضیلت و عظمت پر نہ ہو بلکہ اس کی برائی اور اس کے شر کا خوف ہو۔ یعنی کسی شخص کی اس لئے تعظیم کی جائے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا ستانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسے کسی فاسق وبدقماش شخص کو اقتدار و غلبہ حاصل ہوجائے اور لوگ اس کی عزت اور اس کی تعظیم کرنے پر مجبور ہوں۔ گانے والیوں سے مراد کنجریاں، ڈومنیاں اور نائنیں وغیرہ ہیں! اور قینات قنۃ کی جمع ہے، جس کے اصل معنی گانے والی لونڈی کے ہیں، اسی طرح باجوں سے مراد ہر قسم کے ساز و باجے اور گانے بجانے کے آلات ہیں جن کو شرعی اصطلاح میں مزامیر کہا جاتا ہے جیسے ڈھولک، ہا رمونیم، طبلہ، سارنگی اور شہنائی وغیرہ۔ شرابوں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ یہاں شراب کی تمام انواع و اقسام اور دیگر دوسری نشہ آور اشیاء بھی مراد ہیں۔ جب اس امت کے پچھلے لوگ، اگلے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ برائی اسی امت کے ساتھ مخصوص ہے، گذشتہ امتوں کے لوگوں میں اس برائی کا چلن نہیں تھا۔ چناچہ مسلمانوں میں سے رافضی لوگ اس برائی میں مبتلا ہیں کہ وہ ان گذرے ہوئے اکابر یعنی صحابہ تک کے بارے میں زبان لعن و طعن دراز کرتے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ آیت (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ) 9۔ التوبہ 100) جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے ( ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے خوش ہے!۔ اور ایک آیت میں یہ فرمایا کہ آیت ( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ) 48۔ الفتح 18) (اے محمد ﷺ جب مؤمن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا۔ کس قدر بدنصیبی اور شقاوت کی بات ہے کہ جن بندگان خاص سے اللہ تعالیٰ راضی وخوش ہوا ان سے ناراضگی وناخوشی ظاہر کی جائے اور ان کے خلاف ہفوات بکے جائیں۔؟ ان بندگان خاص کے مناقب و فضائل سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں، وہ پاک نفوس ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے دین کو قبول کیا، قبول ایمان میں سبقت حاصل کی، نہایت سخت اور صبر آزما حالت میں اللہ کے نبی ﷺ کی مدد و حمایت کی، اللہ کے دین کا پرچم سر بلند کرنے کے لئے اپنی جانوں کی بازیاں لگائیں، جہاد کے ذریعہ اسلام کی شوکت بڑھائی، بڑے بڑے شہر اور ملک فتح کئے، کسی واسطہ کے بغیر سید الامام (علیہ الصلوۃ والسلام) سے دین کا علم حاصل کیا، شریعت کے احکام و مسائل سیکھے، دین کی بنیاد یعنی قرآن کریم کو سب سے زیادہ جانا اور سمجھا اور مقدس، ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ امت کے تمام لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ ان کے حق میں یوں گویا ہوں۔ آیت ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) 59۔ الحشر 10) اے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جنہوں نے قبول ایمان میں ہم پر سبقت حاصل کی ہے۔ لیکن ان (رافضیوں) کے وہ لوگ کہ جو یا تو ایمان کی روشنی کھو چکے ہیں، یا دیوانے ہوگئے ہیں، ان مقدس ہستیوں اور امت کے سب سے افضل لوگوں کے بارے میں صرف زبان لعن وطعن دراز کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ محض اپنے گندے خیالات ونظریات اور سڑے ہوئے فہم کی وجہ سے یہ کہہ کر ان پاک نفسوں کی طرف کفر کی بھی نسبت کرتے ہیں کہ ابوبکر، عمر اور عثمان ؓ نے بلا استحقاق خلافت پر قبضہ کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت کے اصل مستحق علی تھے۔ اللہ ان عقل کے اندھوں کو چشم بصیرت دے، آخر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس امت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں نے اس بات کو غلط اور باطل قرار ہے اور قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت اول حضرت علی کا حق تھا نیز صحابہ کرام میں سے جن لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ خلافت میں ان سے اختلاف کیا، انہوں نے نعوذ باللہ کسی بری غرض کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کا اختلاف ان کی اجتہادی رائے کے تحت تھا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ خطاء اجتہادی میں مبتلا ہوگئے تھے، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان پر لعن کرنا اور ان کے حق میں گستاخانہ باتیں منہ سے نکالنا نہایت ناروا، بلکہ صریح زیادتی ہے، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت راہ حق سے بھٹک جانے کی وجہ سے کی اور وہ فسق کے مرتکب ہوئے تو بھی ان کو آخر کس بنا پر برا بھلا کہا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی غلط روی سے توبہ کرلی ہو یا اگر توبہ بھی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ غالب امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی رحمت کے صدقہ میں اور ان کی گذشتہ خدمات کے بدلے میں ان کو مغفرت سے نوازدے گا چناچہ ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ (آنحضرت ﷺ نے فرمایا) میرے (بعض) صحابہ (اگر) ذلت یعنی لغزش کا شکار ہوں گے ( تو) اللہ تعالیٰ ان کو میری صحبت اور میرے ساتھ تعلق رکھنے کی برکت سے بخش دے گا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اکثر وبیشتر صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے پروردگار کی رحمت اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت کے امیدوار رہتے ہیں تو کیا وہ لوگ جو اس امت کے سب سے افضل اور سب سے بڑے لوگوں کے زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کے حق میں یہ نیک گمان رکھا جائے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی بھی ہوگی تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کی عظمت اور ان کے شرف صحابیت کی برکت سے ان سے درگذر فرمائے گا؟ مرتبہ صحابیت کے تقدس وشرف کو داغدار کرنے والے نادانو! سوچو کہ تم اپنی زبان کو کن مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرکے گندا کررہے ہو اور تمہارا یہ طرز عمل رحمۃ للعٰلمین ﷺ کو کس قدر تکلیف پہنچارہا ہوگا!؟ کیا تم اس بات سے بیخبر ہو کہ نیک بخت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے خود کے عیوب ان کو دوسروں کی عیب جوئی سے باز رکھیں؟ کیا تم اس فرمان رسالت ﷺ کی صداقت کے منکر ہو کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو برائی کے ساتھ یاد نہ کرو۔ کیا رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں ہے کہ جب تمہارے سامنے میرے صحابہ کا ذکر ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو؟ اگر تم ذرا بھی ایمان وعقل کا دعوی رکھتے ہو تو سنو کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے۔ ابوبکر و عمر کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان دونوں سے بغض و عداوت رکھنا کفر کی علامت ہے) انصار کی محبت ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت، کفر ہے، اہل عرب کی محبت، ایمان کی ایک شاخ ہے اور ان سے بغض و عداوت کفر ہے جس نے میرے صحابہ کو برے الفاظ سے یاد کیا وہ اللہ کی لعنت کا مستوجب ہوا اور جس نے ان کے بارے میں میرے حکم کی پاسداری کی، میں قیامت کے دن اس کی پاسداری کروں گا۔ اے اللہ بس تو ہی ان لوگوں کو عقل سلیم اور چشم بصیرت عطا کر کے راہ ہدایت دکھا سکتا ہے، جو جہالت و نادانی اور تعصب کی وجہ سے تیرے محبوب نبی ﷺ کے محبوب صحابہ اور ساتھیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور ان کے حق میں زبان لعن وطعن دراز کرکے خود کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بناتے ہیں۔
Top