رسول اللہ ﷺ کی صحابہ ؓ سے بے تکلفی
اور حضرت نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر ؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ سے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبھی انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کی آواز کو سنا جو ذرا زور سے بول رہی تھی پھر جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کا ہاتھ پکڑا اور طمانچہ مارنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ خبردار آئندہ میں تمہیں رسول اللہ کی آواز سے اونچی آواز میں بولتے ہوئے نہ دیکھوں ادھر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو (حضرت عائشہ ؓ کو مارنے سے) روکنا شروع کیا اور پھر حضرت ابوبکر ؓ غصہ کی حالت میں باہر نکل کر چلے گئے آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے چلے جانے کے بعد فرمایا تم نے دیکھا میں نے تمہیں اس آدمی یعنی ابوبکر ؓ کے ہاتھ سے کس طرح بچا لیا؟ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ مجھ سے خفگی کی بناء پر آنحضرت ﷺ سے شرمندگی کی وجہ سے کئی دن تک آنحضرت ﷺ کی خدمت میں نہیں آئے پھر ایک دن انہوں نے دروازے پر حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی اور اندر آئے تو دیکھا کہ دونوں (آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ صلح کی حالت میں ہیں انہوں نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا تم دونوں مجھ کو اپنی صلح میں شریک کرلو جس طرح تم نے مجھ کو اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا، آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا بیشک ہم نے ایسا ہی کیا بیشک ہم نے ایسا ہی کیا یعنی تمہیں اپنی صلح میں شریک کرلیا۔ (گویا آپ نے اپنی بات کو موکدہ کرنے کے لئے یہ جملہ دو مرتبہ دہرایا) ابوداؤد۔
تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا وہ جملہ بطور مزاح تھا جو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ دیکھا میں نے تمہیں اس شخص کے ہاتھ سے کس طرح نجات دلائی گویا آپ نے تمہارے باپ کہنے کی بجائے اس شخص کہہ کر بقصد مزاح حضرت ابوبکر ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے حق میں اجنبی قرار دیا۔